صفدربھٹی
‘ہا.. ہاہ’
ایک قدرے طویل سرد آہ لوہے کے ٹھنڈے سریے کیطرح اس کے محبت سے لبریز سینے کو چیرتی فضائے عالم کو فسردگی میں ڈھانکتے عرشِ بریں پر رعب و جلال سے نکھرے پیرِ بزرگ و برتر کی آنکھوں کو نمناک کر کے جانے کہاں گم ہو گئی
‘شیرو ختم ہو گئی ہے…… ختم……. بالکل ختم’ اس کے چہرے کے وہ طلسماتی نقوش جو کبھی یونان کی دیوی وینس کو شرمسار کر دیتے تھے کوئ مہینہ پہلے کسی مرقد پر رکھے گلابوں کا بے کیف منظر پیشِ کر رہے تھے
لگ بھگ دس برس پہلے مارٹن ماس کی ایک شام پہلی ہی مڈبھیڑ میں اس نے صفران کو اپنا گرویدہ کر لیا تھا. وہ ہو بہ ہو تصوراتی پیکر کی تصویر تھی. سیاہ زلفوں کے سنجاف سے مزین کشادہ پیشانی گویا دیوتائے محبت کا پلے گراونڈ تھا. دل میں گھر کر جانے والی بڑی بڑی آنکھیں، ستواں لاطینی ناک، غازہ و گلگونہ سے آذاد نہایت پر لطف اور دلکش رخسار اور اس کے باریک ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں کو احساسِ ندامت سے پانی پانی کر دیتے تھے، نہایت نفیس ٹھوڑی، ہلکے ہلکے تبسم سے نکھرتے چہرے کی بڑھتی رعنائ جیسے چودھویں شب کا ماہِ ہالہ دار، بھرا بھرا گداز جسم، قدو قامت کی اٹھان، باوقار خرام، سونے کیطرح چمکتی رنگت اور طرزِ تکلم ایسا کہ بے ساختہ جوش کا شعر یاد آتا تھا
جاؤں سو جان سے اس طرزِ تکلم کے نثار
پھر تو فرمائیے کیا آپ نے ارشاد کیا
مگر وہی شیرو آج نقاہت و خستگی کا پیکر بنی بیٹھی تھی. زردی سے اٹا روکھا چہرہ، نہ رخساروں میں رنگ، نہ تبسم نہ لبوں پہ تازگی، ڈھیلا ڈھالا بدن، مانگے کا لباس، جلے کوئلے کے سے ہاتھ پاوں……
بازار میں خرید کرتے وقت صفران نے چمڑے کی ایک نفیس سینڈل پر ہاتھ رکھا تو وہ ہلکی سی سرگوشی میں بے ساختہ کہہ اٹھی
‘ ایسے جوتے تو وہ پہنتے ہیں جن کے پاؤں سرخ و سفید اور ریشم جیسے ہوں ‘
‘تو تمہارے بھی تو ایسے ہی تھے’ وہ دل ہی دل میں تڑپ کر رہ گیا