افسانہ نگار: محمدجاوید انور
تیسری بار عُمر کے عُذر کو مدنظر رکھتے ہُوئے وُہ بولی، ” بُڈھے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وُہ جو یہ مانتے ہی نہیں کہ وُہ بڈھے ھیں ۔ جُوں جُوں مزید بُڈھے ہوتے ہیں خبیث تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ معدُوم ہوتی مردانگی اُنہیں اُکساتی ہے کہ اوچھی اور گھٹیا حرکتیں کریں ۔ عام زُبان میں کہیں تو ” چولیں ” ماریں۔ صنف نازک کے لئے وُہ مضحکہ خیز ، قابل رحم اور بعض اوقات قابل نفرین ہوتے ہیں۔ اُن کی بھونڈی اور عامیانہ حرکات لطیف فطرت کے لئے کراہت تک کا باعث بنتی ہیں۔ زیادہ تر وُہ استرداد کو خاطر میں نہیں لاتے، نہ گالیاں کھا کر بےمزہ ہوتے ہیں ۔ کُچھ عورتیں اُن کے قریب تک نہیں پھٹکتیں اور کُچھ کے قریب آنے کی وُہ جُرات نہیں کرتے۔ جو بے چاری اپنی کسی کمزوری ، مجبُوری یا رواداری میں اُنہیں برداشت کرتی ہیں اُن کی زندگی قابل رحم ہوتی ہے۔”
اُس کے عمیق مُشاہدے اور پُر مغز تجزئے سے میں مُتاثر ہو گیا۔ شازیہ سے میرا تعلق خالص پیشہ ورانہ تھا۔ ہمارے انچارج کو دفتر میں دیر تک بیٹھنے کی عادت تھی اور ہم دونوں اسی سبب دیر تک بیٹھنے پر مجبُور تھے۔ وُہ عُمر میں مُجھ سے پندرہ سال چھوٹی تھی لیکن میری خُوشگوار عادات اور بزلہ سنج طبیعت نے ہمیں بُہت قریب کردیا تھا۔ اگرچہ دفتر میں موجُود تو شام تک رہنا پڑتا لیکن کام بُہت کم ہوتا ۔ بس وقت گُزارنا پڑتا۔ اشرف چوکیدار کے علاوہ ، جو خُود چائے پینے کے لالچ اور تھوڑی سی ٹپ کے عوض ہمیں چائے بنا دیتا اور اُوپر کے چھوٹے موٹے کام بھی کر دیتا ہمارے کمرے میں شاذ ہی کوئی جھانکتا۔
وُہ کبھی تو کوئی رسالہ یا کتاب نکال کر پڑھنا شُرُوع کر دیتی اور کبھی ہم گپیں ہانکنے لگتے۔ وُہ پڑھی لکھی ذہین لڑکی تھی – دُنیا بھر کے موضُوعات پر بول سکتی تھی ۔ دیکھنے میزں خُوش شکل تھی اور شُستہ اطوار کی مالک ۔ گُفتگُو کا ڈھنگ جانتی تھی – بولتے ہُوئے متانت اور شگُفتکی کا عجیب امتزاج اُس کے گرد ہیولی بنائے رکھتا اور مُخاطب اُس سیے باتیں کر کے کبھی نہ اُکتاتا۔ موضُوعات کا تنوع ، لہجے کا اعتماد اور جاذب نقوش کے بدلتے دلکش زاویے سونے پر سُہاگہ تھے۔ میں حیران ہوتا کہ اتنی شاندار شخصیت اور خُوشگوار طور اطوار کی لڑکی بیالیس سال کی ہو چُکی اور ابھی تک کنواری پھر رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس غیر منصفانہ اغماز کی وجہ سےشہر بھر کے لونڈوں پر مجھے غُصہ آتا لیکن میں کُچھ بھی نہیں کر سکتا تھا سوائے متوشش ہونے کے۔ اُس سے جب ایک دو بار پُوچھا تو مُسکرا کر صرف اتنا بولی کہ اس بات کا وُہ کیا جواب دے سکتی تھی ، یہ تو شہر کے لڑکے ہی بتا سکتے تھے- نہ تو کبھی کوئی لڑکا کسی بہانے اُس سے ملنے آتا نہ لمبی لمبی کالیں آتیں۔ گھر سے فون آتا تو بھی امُور خانہ داری سے ہٹ کر کوئی موضُوع زیر گُفتگُو نہ آتا-
حُکماء کے مُطابق تیس سے چالیس سال کے بیچ کا عرصہ عُمر کا وُہ حصہ ہوتا ہے جب جنسی جذبے اپنے عرُوج پر ہوتے ہیں۔ خواہش کی ہنڈیا اُبل اُبل پڑتی ہے اور برداشت کا جام چھلک چھلک جاتا ہے۔ میں نے مُحبت ، شادی جنس غرضیکہ کسی بھی اشتعال انگیز موضُوع پر بات کرتے ہُوئے اُسے غیر مُستحکُم ، ہیجان زدہ حتی کہ غیر معمُولی طور پر پُر جوش بھی نہ پایا۔ وُہ ایک پُرسکُون چہرہ ، مطمئن جسم، آسُودہ ذہن اور مُدبرانہ خُود اعتمادی کے ساتھ برغبت ان موضُوعات پر دلیرانہ بولتی اور میں حیران رہ جاتا۔
ہمارا باس ، جسکی وُہ پسندیدہ سیکریٹری اور میں مُعتمد خاص تھا بُنیادی طور پر ایک مردم بیزار شخص تھا۔ وُہ اپنے کمرے میں محدُود ، کمپیوٹرذ اور انٹر نیٹ کی مدد سے دُنیا بھر میں صرف ضرُوری اور خالص کاروباری رابطے رکھتا اور جسمانی طور پر کبھی کبھار ہی کسی کو دفتر بُلاتا ۔ گھنٹی ایک بار اور لمبی بجتی تو شازیہ کی طلبی ہوتی اور چھوٹی چھوٹی دو گھنٹیاں بجتیں تو میرا بُلاوا آتا ۔ یُوں ہم اپنی گھنٹیوں کا انتظار کرتے اور جو کام ملتا کر کے پھر گھنٹیوں کا انتظار شُرُوع کر دیتے۔
ہم پہروں باتیں کرتے ۔ اگر اُن سب پہروں کو جمع کر لیا جائے تو پتہ نہیں ہم نے کتنے مہینے اور کتنے سال باتیں کی ہونگیں ۔ سچ بولُوں تو ہم بُہت پکے دوست یا شائد سہیلیاں بن چُکے تھے ۔ آپس میں کُچھ پوشیدہ نہیں رہ گیا تھا۔آپ خُود اندازہ لگائیے کہ جب ہم نے سالوں باتیں کیں تو باقی پس پردہ رہا کیا ہو گا۔ ہم جنس پر بھی بات کر رہے ہوتے تو کبھی یہ احساس نہ ہو تا کہ ہم مخالف اصناف کے دو صحت مند نمائندے ہیں ۔ ہم ڈی ۔ ایچ ۔ لارنس ، سعادت حسن منٹو، ژانگ ، ایڈلر اور سگمنڈ فرائیڈ کو بھی ایسے ہی مکمل مدبرانہ ، ناقدانہ اور عاقلانہ پیرائے میں زیر بحث لاتے جیسے بابا بُلھے شاہ، مولانا رُوم یا کارل مارکس کو۔
اگرچہ اُس کا نہ تو کوئی لمبا چوڑا خاندان تھا ، سوائے ایک بُوڑھی ماں کے ، جو اُس کے ساتھ ہی رہتی تھیں اور نہ کوئی بچوں کا ساتھ ، لیکن میں جب بھی اپنی بیگم اور بچوں کا ذکر کرتا وُہ پُوری توجُہ سے سُنتی ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی خُوشیوں کا ذکر سُن کر مُسکراتی اور مسئلوں کے بیان پر ملُول ہوتی ۔ اتنا لمبا ساتھ ہونے کی وجہ سے وُہ میرے خاندان کے ہر فرد ، آس کے حالات , عادات اور خصائل تک کو جاننے لگ گئی تھی۔ کبھی کبھار میں کسی گھریلُو مسئلے کا ذکر کر بیٹھتا تو متفکر ہو کر اپنے تجربے اور مُطالعے کی بُنیاد پر حل بھی تجویز کرتی ۔ میں سوچ میں پڑ جاتا کہ اس نے شادی نہیں کی ، ازدواجی زندگی کی اُلجھنوں اور لذتوں سے محرُوم ہے، بچے نہیں ہیں تو میرے بیوی بچوں کا ذکر اس کے اندر کوئی محرُومی کوئی دُکھ نہ جگاتا ہو ، لیکن اُس نے کبھی کوئی ایسا شائبہ تک اپنے روئیے یا چہرے کے تاثرات سے نہ ہونے دیا۔
” اور دُوسری قسم کے بُڈھے؟”
میری دلچسپی بر قرار تھی۔ اُس نے ذرا سا کھنکار کر گلا صاف کیا اور گویا ہُوئی۔
” بُڈھوں کی دُوسری قسم ذلیل تر ہے۔ یہ وُہ منحُوس مگرمچھ ھیں جو دام ھم رنگ زمیں بچھائے مُنتظر رہتے ہیں کہ کوئی آ پھنسے۔ ان کے جال بڑے مضبُوط اور جابر ہوتے ہیں۔ بظاہر بےضرر مگر حقیقت میں ظالم اور ایذا پسند یہ گُرگان باراں دیدہ و سرد و گرم چشیدہ رنگا رنگ کرداروں میں ملتے ہیں۔ کہیں دانشور تو کہیں نقاد، کہیں سینئر بیوروکریٹ تو کہیں سیٹھ ، کہیں مُدیر تو کہیں مُشیر۔ کہیں پیر تو کہیں زمیندار۔
یہ اپنا جال پھیلائے بگلا بھگت بنے بیٹھےرھتے ہیں اور کسی بھی علمی ، انتظامی ، نفسیاتی ، مالی یا مُعاشرتی مُعاملے میں زیردست کو زیر اثر لا کر مطلب براری کرتے ہیں۔ اکثر اوقات تو شکار کا زیر دام رہنا ہی ان کے لئے ذہنی ، نفسیاتی حتی کہ جنسی تسکین کا کامل حصُول ہوتا ہے۔ "
میں حیرت زدہ رہ گیا۔
” ان میں سے میں کس قسم کا بُڈھا ہُوں ؟ "
میں نے خُود کو کہتے سُنا۔
” تُم اک تیسری قسم کے بُڈھے ھو۔”
فوری جواب آیا
ساتھ ھی ایک لمبی بیل بجی اور وُہ سپاٹ چہرہ لئے بُڈھے باس کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔
اُس نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا تو حیرتوں کے لا تعداد در مُجھ پر وا ہُوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔