یہ لوٹیوں والے سال کی ایک تاریک رات تھی جب حبیب 17 سال کی عمر میں اپنے 28 سالہ نذیر کے ساتھ چیچہ وطنی سے ساہیوال کی روڈ کے ارد گرد کے دیہاتوں میں حفاظتی گشت پہ تھا. اس کے پاس ایک بڑا یک دھاری چھرا، جب کہ نذیر، گھوڑے اور ایک پستول سے لیس تھا.
اس وقت تک فیصلہ نہیں ہو پایا تھا کہ یہ علاقہ پاکستان بنے گا یا نہیں لیکن لوٹ مار کے واقعات شروع تھے، چیچہ وطنی سے ساہیوال کو آتے ہوئے دائیں طرف چک نمبر 37 اپنی چوری چکاری میں معروف ہو چکا تھا جہاں سکھڑے زیادہ بہادر اور اکثریت میں ہونے کے سبب خاصے مضبوط تھے تا ہم اس وقت کیا سکھ کیا ہندو یا مسلمان سب ڈرے ہوئے تھے، لیکن آج کل واردات ہونے کا پتہ نہ چلتا تھا،.
مقامی پولیس مکمل طور پر بے بس تھی غازی آباد روڈ پہ پہنچتے ہی ٹانگے پر موجود تھانیدار نے نذیر کے سینے سے چسپاں گولیاں اور پستول دیکھتے ہی پوچھا،
اس کا لائسنس ہے؟
سینے پر لگے پٹے میں پھنسی گولیوں پرباری باری انگلی رکھتے ہوئے نذیر نے جواب دیا
"ایک
دو
تین
چار
تمہیں کون سا چاہیے”
تھانے دار نے کوچوان کو گالی دے کر چلنے کا کہا اور دونوں ڈھلتے سورج کے ساتھ چیچہ وطنی کو ہو لیے جہاں سے گشت کو علاقہ شروع ہو رہا تھا۔
ککھاں آلی روڈ جس کے دونوں کناروں پر اکاں کے پودے کسی دور میں خاص طور پر اگائے گئے تھے جن کے دھاگوں جیسے پتے سڑک پر گر کر اسے دھول اور سختی سے نسبتا پاک کرتے. یہ سڑک ملکہ وکٹوریہ کی برصغیر آمد کے موقع پر تعمیر کی گئی تھی جس پر اس نے ملتان سے دلی سفر کرنا تھا
دونوں نے رات ڈھلے اسے عبور کیا اور 37 چک کے نواحات میں وہ آدھی رات کو پہنچے، اس دوران انہیں شکار کے طور پر کوئی سکھڑا یا ہندو نظر نہ آیا
لیکن دور موجود قبرستان میں ایک ٹمٹماتا دیا ان کی توجہ کھینچنے لگا جو اس اندھیری رات اور رات کے اس پہر میں بہت واضح اور ناقابل یقین تھا.
نو عمر حبیب گتکے کا ماہر، دو بدو لڑائی سے نہ گھبرانے والا قبرستان کو اٹھتے قدم بے دلی اور نسبتا جھجک سے دینے لگا تو نذیر نے اسے تگڑا ہونے کا کہتے ہوئے گھوڑے کی باگ تھماتے ہوئے سمجھایا کہ ویسا کچھ نہیں ہوتا جیسا ہم قبرستانوں بارے سوچتے ہیں.
لمحہ بہ لمحہ قبرستان قریب آتا گیا اور روشنی اپنی جگہ سے نہ ہلی. درمیان میں کبھی کبھار کوئی جھاڑی یا تنا آتا تو وقتی طور پر روشنی نظروں سے ہٹتی لیکن دیا اپنی جگہ پر جما رہا.
نذیر نے سوچا کہ اس وحشت ناک تنہائی اور اندھیرے میں، قبرستان میں کہیں گھوڑا کوئی حرکت نہ کر دے سو اس نے گھوڑے کو قبرستان سے باہر باندھا.
اور کندھے پر صافہ ہاتھوں میں پستول تھامے حبیب کو پیچھے چلنے کا اشارہ کرنے لگا، کچھ قدموں کے بعد انہیں اس دیے کے گرد ہلکے پھلکے حرکتے جسم کی موجودگی کا احساس ہوا.
نیلے خوف کی ایک آسمانی بجلی کے جیسی بے ترتیب لہر حبیب کے ناک اور ناف پر رینگ گئی مگر نذیر نے اپنے قدم مزید محتاط کیے.
اور حرکتے جسم کے پچھلی طرف سے باریک باریک قدم اٹھاتا ہوا قریب ہونے لگا
کچھ نزدیک پہنچنے پر ان دونوں کو محسوس ہوا کہ وہ ایک برہنہ انسانی جسم کی پشت کی طرف ہیں.
یہ جسم اندھیرا ہونے کے باوجود اپنا الگ کالا رنگ رکھتا تھا مگر نہایت صحت مند اور گٹھی ہوئی پشت پسینے اور سر کے کالے بالوں سے لت پت تھی.
رات کے اس پہر، ننگے جسم پر کھلے کالے بال دیکھنا حبیب کے لیے ناقابل یقین حد تک خوفزدہ کر دینے کا منظر تھا مگر نذیر کا حوصلہ کافی تھا.
دھیرے دھیرے نزدیک پہنچنے پر منظر مزید کھلا،
یہ ایک تازہ قبر تھی جس کا مردہ بالکل تازہ حالت میں باہر پڑا تھا
یہ عورت مردے کو ٹیک کے سہارے بٹھا کر اس پر سوار تھی اور آٹا گوندھنے جیسی حرکت میں مشغول تھی. دونوں اس کی پشت پر موجود دیکھ رہے تھے.
کہ عورت اس پر سواری کے ساتھ ساتھ ایک گڈے کو مردے کے سینے پر رکھے ہوئے تھی.
مردے کو سرمہ ڈالنے کے بعد گڈے کو سرمہ ڈالا،
اور پھر گڈے کے سر میں تیل لگانے کے بعد مردے کے سر میں تیل لگانے لگی.
مکمل برہنہ عورت دونوں کے لیے کسی پہیلی سے کم نہ تھی.
ان جانے اندھیرے سے جانت کے صحن میں داخل ہوتے ہی حبیب کے دل سے بھوت پریت کا خوف چلا گیا.اور حیرت براجمان ہو گئی.کہ جہاں دو مرد خوف زدگی میں بمشکل پہنچے وہاں ایک عورت رات اندھیری میں کون سا جذبہ لے کر آیا
نذیر نے اپنا صافی اس پر پھینکتے ہوئے پستول سیدھا کیا اور اونچی آواز میں دھاڑا ۔
کیا کر رہی ہو یہاں؟
اس نے مردے سے لپٹتے لپٹتے خوف کے مارے صافہ خود پر اوڑھا اور بتایا
ماں بننے کا ٹوٹکا آزما رہی ہوں۔