افسانہ

روشن دان : تابندہ سراج

وہ بوڑھا آج پھر اپنے ملازم سے الجھ رہا تھا۔

” آندھی آنے والی ہے اور پھر بارش۔ میرا تجربہ بھی ہے اور مجھے دکھائی بھی دے رہا ہے”
"کہاں باباجی! میں باہر سے آرہا ہوں۔ باہر تیز دھوپ ہے اور ہوا بند”
ملازم نے زور دے کر کہا۔
"بوڑھا چِلّا کر بولا: ” میں نے وہ پتوں کی شاخ تیزی سے ہلتی محسوس کی ہے، جو روشن دان سے نظر آتی ہے”
” وہ تو واپڈا والے بجلی کے تار مرمت کررہے تھے تو اس درخت کی کچھ ٹہنیاں کاٹی گئی ہیں”
مگر بوڑھے نے تو بس ایک رٹ لگا رکھی تھی اور یہ رٹ پچھلے دو سالوں سے جاری تھی۔ اب تو ملازم بھی شدید زچ ہوگیا تھا۔
"بابا جی! میں آپ کی شکایت صاحب کو لگائوں گا۔میرا کام آپ کو موسم کا حال بتانا نہیں۔۔۔کھانا کھائیں تو میں برتن اٹھائوں”
بوڑھے نے اپنی آنکھیں روشن دان سے ہٹائیں اور چپ ہوگیا۔ یہ بوڑھا، جوانی میں تو چڑچڑا نہ تھا۔ اس سے بڑھ کر خوش مزاج اور ہنس مکھ شاید ہی پورے خاندان میں کوئی ہو۔خوش لباس، ملن سار آفیسر۔ شادی کے بعد،اپنی پسند کا گھر بنوایا۔ ہر کمرے میں کھڑکیوں اور روشن دانوں کا خاص اہتمام کروایا۔ ایسا روشن اور ہوادار گھر مثالی لگتا تھا۔پھر ایک ایک کرکے چاروں بیٹوں کی شادیاں ہوئیں ، تو یہی گھر چھوٹا پڑگیا۔ اس کو اور اس کی بیوی کو صحن کے پار والا کمرہ ملا۔کچھ عرصے بعد، نوکری کے سلسلے میں دو بیٹے، ملک سے باہر اور چھوٹا بیٹا دوسرے شہر منتقل ہوگیا۔ اب گھر میں ایک بیٹے کے بیوی بچے ہی رہتے تھے، مگر گھر مزید چھوٹا ہوگیا تھا۔ خیر یہ دونوں میاں بیوی اپنے کمرے میں، اپنی دنیا بسائے رکھتے۔بوڑھا تب تک جوان تھا ، کہ جب تک اس کی رفیق کار زندگی کی دوڑ میں، اس کا ساتھ نہ چھوڑ گئی۔ بیوی کی اچانک موت کے صدمے نے اس کی کمر جھکا دی ۔ خوراک اور صحت کا خیال کرنے والی تو چلی گئی۔ کچھ ہی عرصے بعد بوڑھے پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ بستر سے جالگا۔ اب اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک نوکر رکھ دیا گیا، جو کھانے اور صفائی کا خیال رکھتا۔ کبھی کبھار بوڑھے کی فرمائش پر،وہیل چیئر پر ،گھر سے باہر گھمانے بھی لے جاتا۔پھر ایک دن جب ملازم کا دھیان موبائل میں تھا، تو بوڑھے کی وہیل چیئر کھمبے سے جا ٹکرائی۔ بوڑھا زمین پر گرا اور اسے کئی چوٹیں آئیں۔کیا معلوم تھا کہ یہ چوٹیں تو ٹھیک ہو جائیں گی مگر ان کی سزا اتنی شدید اور مستقل ہوگی۔ اس کے باہر جانے پر پابندی لگا دی گئی۔۔۔ بستر پر لیٹے لیٹے بوڑھے کو کمرے کا ایک اک کونا اور نقش حفظ ہوچکا تھا۔ بے جان چیزیں تو بدلنے میں کافی وقت لیتی ہیں۔وہ بھی تو انھی بے جان اینٹوں کی طرح ساکن تھا۔کمرے میں دو ہی چیزیں حرکت کرتیں اور زندہ نظر آتیں، ایک اس کی آنکھیں اور دوسرا اس روشن دان کے مناظر۔ پہلے تو اس کمرے میں دو روشن دان اور دو کھڑکیاں بھی تھیں۔ پھر گھر کا پرانا سامان رکھنے میں کھڑکیوں کے کواڑ رکاوٹ بنے اور ان کو بند کردیا گیا۔ یہ ایک روشن دان بھی بس اسی کی ضد سے کُھلا چھوڑا ورنہ دوسرے روشن دان کے طرح دھول مٹی کا باعث تو یہ بھی تھا۔ بس اب اس کی آنکھیں تھیں اور روشن دان کا نظارہ۔
باہر کا موسم کیسا بھی ہو، بوڑھے کا روشن دان جو دکھاتا، اسے بس وہی نظر آتا۔ اس کے دل کا موسم روشن دان سے وابستہ ہوگیا تھا۔۔۔مگر آج حبس کچھ زیادہ ہی تھا۔ لگ رہا ہے کہ زوروں کی آندھی آئے گی یا بادل کڑکڑا کے خوب برسیں گے۔ملازم نے تو بتایا کہ مطلع صاف ہے، لیکن اس کا دل کہتا ہے کہ روشن دان غلط نہیں بتاتا۔

younus khayyal

About Author

3 Comments

  1. yousaf khalid

    جون 4, 2021

    ایک کسک آمیز کیفیت جس کا تعلق انسانی حیات کے اس دور سے ہے جب انسان بے بسی کی حالت میں سوائے آہ و بقا کرنے کے کسی قابل نہیں رہتا – یہ بہت بڑا المیہ ہے اور ہم جس معاشرے میں ہیں یہ تیزی سے ایسی صورت حال سے بے خبر ہوتا جا رہا ہے رفتار اتنی زیادہ ہے کہ بوڑھے لوگ کمزور افراد اور بے بس انسان توجہ حاصل نہیں کر پاتے اور عدم توجہی کا شکار ہو کر موت سے پہلے مرتے جا رہے ہیں

  2. younus khayyal

    جون 4, 2021

    بہت عمدہ

  3. گمنام

    جون 4, 2021

    اچھوتا خیال پیش کیا ہے واہ کیا کہنے

yousaf khalid کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی