افسانہ

خوں بہا : فریدہ غلام محمد

گاڑی کی رفتار کافی تیز تھی ۔۔۔۔۔۔گاڑی اس کے سسر چلا رہے تھے جبکہ دولہا ان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ وہ پیچھے تنہا تھی سیاہ ماتمی سوٹ اس کے لئے لایا گیا تھا جس کو پہن کر اسے گھر سے رخصت کر دیا گیا ۔

اس نے ایک بار سب کو دیکھا تھا ۔سب نظریں جھکائے کھڑے تھے ۔وہ باپ جس نے آج تک اس کی کوئی خواہش رد نہیں کی تھی ،والدہ جس کو اس وقت اپنے بیٹے کی جان عزیز تھی ،اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی ۔ اس نے بیٹی سے قطع تعلقی کا اعلان کیا ھے اور بھائی ۔۔۔۔ایک لمحہ رکی رہی مگر وہ بت بنا کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔تب وہ خاموشی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفر جاری تھا دونوں خاندان نجانےکب سے۔۔۔ایک دوسرے سے دشمنی بڑی ہی ایمانداری سے نبھا رہے تھے مگر اچانک ایک سانحہ ھو گیا ۔

فرقان نے بابر پر گولی چلا دی تھی اور اس کو بچایا نہیں جا سکا تھا ۔بات تو کچھ بھی نہیں تھی ۔۔۔۔۔زمینوں کے فیصلے ھو گئے تھے ۔۔۔۔۔الیکشن میں ضرور چپقلش ھوتی تھی مگر اتنی بھی نہیں۔ دونوں کو ایک ہی لڑکی پسند آئی ۔ وہ بابر کو پسند کرتی تھی اور فرقان نے اپنے تئیں اسے مار کر یہ قصہ ہی ختم کر دیا ۔

مصری خان کے دو ہی بیٹے تھے ،ایک باہر تھا ،ڈاکڑ تھا اور انگلینڈ میں رہتا تھا ،بابر زمین کی دیکھ بھال کرتا تھا ۔۔ تین بیٹیاں تھیں جو اپنے اپنے گھر کے ھو چکی تھیں ۔۔۔۔۔۔ اس کے گھر میں تین بھائی تھے جن کی اکلوتی بہن وہ تھی جو خون بہا بن کر ان کے گھر جا رہی تھی ،نجانے کتنی زمین اور اسکے ساتھ وہ ۔۔۔ ۔۔واہ ہاجرہ تیری قسمت ۔۔۔تجھے ایسے ہی ضائع ھونا تھا کوئی قانون نہیں جو ایسے بےرحم انسانوں کو پکڑے ۔۔۔۔پولیس آئی تو پتہ چلا بابر بندوق صاف کر رہا تھا ،گولی چل گئی ۔۔۔ کوئی رپورٹ نہیں ۔۔۔۔مقدمے کی پیروی کس نے کرنی تھی ۔۔ مقدمہ تو درج نہیں ھوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب اپنی اپنی جگہ پرسکون تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر تمام عمر اس کو رایگاں ھونا تھا۔۔۔۔۔۔کتنے ہی آنسو دوپٹے میں جذب ھو گئے۔

“اترو بی بی تمہیں کسی نے لینے نہیں آنا ۔تمہیں کمرہ دکھا دوں ،سارے کام بھی بتا دوں۔ جلدی کرو شاباش”
کرخت آواز پر وہ چونکی ،وہ ایک جدید طرز کا خوبصورت ولا تھا اور وہ عورت شاید یہاں کام کرتی تھی ۔حلیہ کچھ ایسا تھا ،وہ اتری تو لگا جیسے کسی قید خانے میں جا رہی ھو ۔سرسری سا دیکھا ۔پھر وہی آواز ۔

“ادھر کہاں جا رہی ھے تیرا کمرہ باہر سے ھے آ ادھر ۔‘‘

جتنی آواز کرخت تھی ہاتھ اس سے کہیں زیادہ کھردرا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیٹرھیوں سے چڑھتے آخر اسکا کمرہ آگیا ۔اس نے لائٹ آن کی ۔تو بےساختہ “شکر” نکلا ۔۔۔۔۔

“سن لڑکی یہ تیرا کمرہ ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی باتھ روم ھے ۔۔سامنے کچن ۔سامان فرج میں رکھ جاؤں گی پکانا خود ھو گا اور کام ۔۔ پہلی بار وہ اس سے مخاطب ھوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبح سویرے ناشتہ بنانا ،برتن دھونا اور قالین صاف کرنے والی مشین سے سارا گھر صاف کرنا ،اس کے علاؤہ پچھلے لان کے پودوں کی دیکھ بھال کرنا ۔۔۔۔۔اس کے علاؤہ بڑے صاحب سے لیکر چھوٹے صاحب تک کسی کے سامنے نہیں جانا” ۔

اس نے روٹی رٹائی تقریر جھاڑی تھی یا اس خون بہا میں آنے والی دلہن کو بےجرم ھونے کے باوجود ساری سزائیں سنا ڈالی تھیں یا یہ اس کا حق مہر تھا

“اب تم بھی غور سے سن لو مجھے یہ سب دوبارہ نہ بتانا میں یہ سب کر لوں گی اب تم جاؤ اور اپنی شکل دوبارہ نہ دکھانا”
عورت کی آنکھیں پھٹ گئیں ۔۔۔۔۔اس نے بیگ زور سے زمین پر رکھا اور تیزی سے اندر جانے والے زینے سےاتر گئی۔
واہ کومل رحمان ۔۔۔۔اب تجھے ایسے جینا ھے کون کہے گا تو لندن پلٹ ھے کئی ڈگریاں ہیں تیرے پاس ۔۔۔۔تو ڈاکڑ ھے اور وہ سیم بھوری آنکھوں سے محبتیں لٹاتا تھا تجھ پر کہاں ڈھونڈ پائے گا تجھے ۔۔۔۔۔۔سب پرائے ھو گئے ۔۔۔۔۔۔۔ اتنا پڑھ لکھ کر جب بابا نے فرقان کے لئے زندگی کی بھیک مانگی تو خود کفن پہن کر چلی آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ رو رہی تھی ۔۔۔۔ بلک رہی تھی۔۔۔۔۔ساون بھادوں کی جھڑی تھی جو برس رہی تھی ۔
تین گھنٹے گزر گئے تھے کوئی آواز تک نہ تھی ۔۔مرتی کیا نہ کرتی اس نے الماری کھولی جس میں کچھ سوٹ ہنیگر سمیت لائی تھی ،لٹکائے ،۔۔۔۔۔۔قران پاک رکھا،جاءنماز باہر رکھی ۔۔۔تسبیح بستر پر رکھی ۔دو چادریں الماری میں تھیں ۔ایک بچھی ھوئی تھی ۔۔۔۔ لیپ ٹاپ ٹیبل پر رکھا ۔۔۔۔۔موبائل رکھ دیا فائدہ نہیں تھا بغیر سم کے تھا یہاں نیٹ کا کیا سسٹم تھا ، وہ جانتی نہ تھی ۔

وہ چھ بجے اس عورت کا انتظار کر رہی تھی ۔۔وہ نہیں جانتی تھی کچن کس طرف ھے اسے کہاں جانا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد وہ آئی اور اسے سیدھا کچن میں لے گئ ۔۔۔۔۔

“یہ لو آٹا ،چالیس پراٹھے بناؤ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ایک لمحہ اس کا ہاتھ رکا پھر خاموشی سے پکانے لگی ۔۔۔۔یہ لو اب کیا کرنا ھے ؟اس نے سکون سے پوچھا۔ ۔۔ ’’اب اپنا ناشتہ اٹھاؤ اور کمرے میں چلی جاؤ ۔‘‘

مجھے بھوک نہیں ۔

’’نہیں کھاؤ گی تو مر جاؤ گی۔یہاں کوئی نہیں جس نے تیری منت کرنی ھے کہ کھاؤ۔‘‘

سچ کہتی ھو مگر میں تو ویسے مر گئ ھوں” “رسانیت سے کہہ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی اوپر آ گئی ۔۔۔۔۔ایک گھنٹہ تو لگا ۔۔ کام ھو گیا ۔
دو ہفتے تو اس نے یہاں کسی کو نہیں دیکھا تھا ۔اس روز نہا کر تولیہ باہر ڈالنے آئی تو ایک لمحہ کو جیسے اس کی سانس رک گئی ۔۔لان میں سیم ۔۔۔۔۔۔۔یہ یہاں ۔۔۔۔نہیں نہیں شاید اسکی شکل ملتی جلتی ھے ۔۔آنکھوں کا وہم سمجھ کر وہ اندر چلی آئی۔
بھراواں اوپر کچھ رکھنے آئی تو اس سے رہا نہیں گیا ۔”۔بھراواں ۔۔کیا بات ھے ؟اتنے دنوں میں اسے یہ احساس ضرور ھو گیا تھا کہ وہ کرخت آواز میں بولتی ضرور تھی مگر اس کا دل بہت ہی نرم تھا ۔۔ادھر بیٹھو ۔۔۔اس نے بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔تھوڑی دیر وہ اسے دیکھتی رہی پھر بیٹھ گئ بیڈ پر نہیں قالین پر۔
میری شادی کس سے ھوئی ھے؟بابر خان کے چھوٹے بھائی سے۔۔۔۔اسکا نام عصام خان ھے نا؟ ہاں اور سب اس کو سیم کہتے ہیں ؟ہاں ۔۔۔۔۔۔میں جانتی ھوں تمہارا کوئی قصور نہیں لیکن خود سوچو انکا جوان بیٹا گیا ھے ۔۔۔۔زخم بھرتے بھرتے وقت لگتا ھے نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں بھراواں”
وہ ابر آلود شام تھی ہسپتال سے نکلنا چاہ رہی تھی کہ سسڑ نے کہا ایک مریض دیکھ لیں ۔۔۔وہ ایمرجنسی گئی تو ایک خوبصورت سا نوجوان کراہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔” کیا ھوا انھیں ۔۔۔۔۔ چارٹ دیکھا ۔۔ ۔۔میگرین ۔۔۔ارے آپ اس سے گھبرا گئے وہ مسکرائی ،اس کی تسلی بھری باتیں ،دوا سے وہ جلد ہی بہتر ھو گیا ۔۔۔عصام کو وہ لڑکی بہت بھائی تھی سوہنی من موہنی سی کچھ میٹھی کچھ نمکین سی چنچل تھی ۔
ایک روز اچانک اسے مارکیٹ میں مل گئی بلو جینزاور لانگ سرخ کوٹ میں ۔۔۔وہ ہی ادائے دلبرانہ ،آنکھوں کی چمک اوپر سے سیاہ آنکھیں ،سیاہ بال ۔سفید رنگ دل چاہا کہہ دے جنت کی حور ھو تم ۔۔۔وہ سوچ ہی رہا تھا کہ بادل کے گرجنے سے وہ چیخ مارتی اس سے لپٹ گئ “جلدی چلیں مجھے ڈر لگ رہا ھے آپ کو نہیں پتہ بادل کے گرجنے سے مجھے بہت ڈر لگتا ھے
“ارے واہ اتنی سی بات سے گھبرا گئیں ”
وہ محظوظ ھو رہا تھا ۔آپ بدلہ لے رہے ہیں نا ؟ میری مجال آئیے گھر چھوڑ آؤں اس نے مسکراتے ھوئے اس کا ہاتھ تھاما ۔۔۔ اس روز کومل نے اسکو کافی پلائے بغیر نہیں بھیجا ۔۔فون پہ باتیں لمبی ھونے لگیں
“پاکستان جا کر پہلے تمہارے گھر رشتہ بھیجوں گا ،میرے گھر والے نہ مانے تو ؟اٹھا کر لے جاؤں گا سنجیدگی سے کہا تو وہ بےساختہ ہنس دی
یہ اس کی کومل سے آخری گفتگو تھی ۔۔۔پھر دنیا ہی بدل گئی اگلے روز گھر جانا پڑا ۔۔۔وہ کومل کو کیا بتاتا ۔۔۔۔۔
کومل کو یاد تھا کہ اس کا نمبر نہیں مل رہا تھا ایک دن اسی کا نمبر ملا رہی تھی کہ بابا جان کا فون آگیا ۔۔۔۔۔اور پھر وہ ھوا جس کا گمان بھی نہ تھا
عصام دکھ و کرب کے باوجود نکاح کے وقت کومل کا نام سن کر چونکا کاش ایسے ملنے سے بہتر تھا مر جاتے ہم
پیار مرتا نہیں دفن کر دو کہیں نہ کہیں سے پھر باہر نکل آتا ھے وہ کومل کو اسطرح نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن اسی کو تقدیر کہتے ہیں شاید ۔۔ جس کو سرخ جوڑے میں لانا چاہتا ھے جس کے آنچل میں تارے ٹانکنا چاہتا تھا وہ سیاہ لباس میں آئی۔
نماز پڑھ کر بستر پر لیٹی ہی تھی کہ زور سے دروازہ بجا ۔۔ دل دھک کر کے رہ گیا ۔۔ بھراواں تھی ۔۔۔۔بابر کی بیوی کو بچہ ھونے والا تھا اسکی طبیعت بگڑ گئی تھی اسے طلب کیا گیا تھا ۔۔۔۔ وہ نیچے اتری تو عصام باہر ہی تھا ۔۔۔ وہ اسے نظر انداز کر کے اندر چلی گئی ۔۔۔۔ پیاری سی لڑکی ۔۔ ہائے فرقان یہ کیا کر دیا تم نے ۔۔۔۔۔۔۔جلدی سے کاغذ پر دوائیں لکھیں ۔۔۔خود ہی باہر گئی ۔۔۔۔ سیم یہ سب لے آؤ اور جلدی آنا جاؤ اس نے بےساختہ اسے دھکیلا پیچھے بابا جان تھے ،وہ نہیں جانتی تھی ۔ عصام ،بابا سے نظریں چرائے باہر چلا گیا۔
بچہ بہت پیارا تھا ۔۔۔اس نے فروا کو ڈریپ لگائی اور بچے کو نہلا کے کمبل میں لپیٹ کر دروازے کے پاس آئی ۔۔باہر بابا،اماں اور عصام کھڑے تھے
“بابا لیجئے اپنا پیارا بابر “بہت مبارک ھو آپ سب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ عصام کودوائیوں کی ترتیب بنا دی ھے اگر آپ سب کی اجازت ھو تو صبح تک ٹھہر جاؤں فروا کے پاس؟”
ہاں تم ٹھہر سکتی ھو ۔۔یہ آواز بابا جان کی تھی ۔۔۔اس نے عصام کو دیکھا ۔۔۔۔۔اس نے نظریں چرا لیں ۔
اس رات کے بعد بھی اسے کئی دن فروا اور بچے کو دیکھنے آنا پڑا۔
اماں جان بھی اس سے بات کرنے لگی تھیں لوگ مبارک باد دینے آتے تھے ۔۔۔۔۔۔بھراواں کا رویہ بھی بدل گیا تھا ۔۔۔۔۔ پھر ایک دن جشن کی رات رکھی گئی۔
اماں جان نے پوتے کی خوشی میں اسے جو جوڑا دیا تو ساتھ حکم بھی کہ یہ پہن کر سر شام ہی وہ نیچے آ جائے

اس نے فیروزی رنگ کا خوبصورت لباس پہنا۔
پرس میں سے ہلکی سی جیولری نکالی ۔پہن کر ہونٹوں پر گلابی لپ اسٹک لگائی اور بالوں کی چٹیا بنائی۔ نجانے کیوں اس کا دل چاہا وہ تیار ھو ۔
ہار سنگھار تو پیا کے لئے ھوتا ھے ،اب پیا ہی نظر چرائیں تو وہ کیا کرئے ۔ ان کے گرد رقص کرئے۔ان کے چرنوں میں داسی بنکر بیٹھ جائے ۔
سلیقے سے آنچل سر پر جماتی وہ نیچے آئی تو سب ہی موجود تھے ۔۔۔۔۔ وہ رک گئی۔
پتہ نہیں سب کیا کہیں ۔۔۔۔۔واپس ہی چلی جاتی ھوں ۔۔۔۔۔وہ مڑی ہی تھی۔

“کہاں چلی کومل فرقان ،یہ آواز اف کتنا انتظار تھا کہ عصام خود پکارے ۔۔کیا خوشیاں میرے دل کے دروازے پر دستک دے رہی ہیں کیا میری تپسیا قبول ھو گئی۔ کیا میرے آنسو بارگاہ الٰہی میں منظور کر لئے گئے ۔۔کسی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا وہ بابا جان تھے دوسری جانب عصام ۔

“۔۔آو بیٹیو!بھابھی سے ملو ۔۔”

سب اس کو گلے لگا رہی تھیں ۔۔ اماں نے ماتھا چوم لیا ۔

’’کڑیو آج ہی مہندی کرتے ہیں اور کل اس کو دلہن بنا دو میرے عصام کی ”

اماں جان نے جونہی کہا ہر طرف خوشی بکھر گئی ۔۔۔۔۔۔۔ عصام نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔کہا تھا نا تم ہی ھو بس تم ہی ۔۔۔۔اس نے شرما کے نظریں جھکا لیں ۔
بابا جان کے دل میں سکون اتر گیا تھا ایک بیٹا دشمنی کی نذر ھو گیا دوسرے کی زندگی سے کھلواڑ کر کے وہ شاید جی نہ پاتے ان کا فیصلہ درست تھا انھوں نے بابر کے بیٹے کو دیکھا اور مسکرا دیے۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی