افسانہ

خوابوں کا ڈورا : شازیہ مفتی

توبہ آج تو سڑکوں پہ اتنا رش تھا یوں لگ رہا تھا سارے مردوزن مع آل اولاد باہر نکل آئے ہیں ۔ بہت پچھتائ آج خریداری کے لیے نکل کر ۔ بمشکل راستہ بناتے ، ہانپتے ، ہاتھوں سے گرتے وزنی تھیلے سنبھالے گاڑی تک پہنچی ۔ اچانک پھٹی پٹھی آواز میں ایک صدا سنائی دی ۔
” دے جا بیٹی صدقہ داتا جھولی بھردے ”
ڈگی میں سامان رکھ کر مڑی تھی کہ جانی پہچانی صدا نے دھپ سے کندھے پر ہاتھ مار کر دھمکی دی ۔۔۔۔۔

” مائی کو لال نوٹ دے دے ، تری گاڑی نہیں چلے گی ”
بھئی کیوں نہیں چلے گی گاڑی کیا لال نوٹ چابی ہے گاڑی کی ، یا پٹرول ہے یا موبل آئل اور یا یہ محترمہ گاڑی سے ” جپھا مار کر "چلنے سے روک لیں گی ۔سوچتے سوچتے بیٹھنے لگی دروازہ بند کیا ۔ ابھی بٹوے سے لال نوٹ نکال ہی رہی تھی کہ ڈرائیور صاحب نےگاڑی چلادی ۔ ہٹی کٹی عورت گا لیاں بکتی تھوکتی کوستی کچھ دور تک پیچھے پیچھے آئ ۔
” ارے اللہ دتہ بد دعا دے دے گی روکو گاڑی ۔ ”
میرے کہتے کہتے ہم بڑی سڑک تک آچکے تھے ۔
ظاہر ہے پھر ٹریفک میں بہتے چلے گئے ۔ اس عورت کی آواز اور انداز جیسے ذہن سے چپک ہی تو گئے ۔ ذہن بوجھل ہوگیا وہ کیا مصرعہ ہے یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئ ہوں ۔
یہ لہجہ سالوں پہلے سنا تھا اور یہ عورت ، پھر ایک بھولی بسری یاد جیسے تازہ ہوگئ ۔
"میسا چیوسسٹس” کتنا مشکل نام تھا امریکی ریاست کا ،اور وہاں سے آنے والے مہمان کیسے ہونگے ، یہ سوچ کر ہی میں بوکھلائی بوکھلائی پھر رہی تھی ۔ رات گئے وہ لوگ پہنچے جب میں سوچکی تھی اور صبح میسا چیوسسٹسنی حلوہ پوری کے مزے لے رہی تھیں ۔
” ارے یہ کوہ قاف کی پری یہاں کہاں آگئ بھٹک کر ”
دروازے کے پیچھے سے جھانک کر دیکھتی میں سوچ رہی تھی۔ احمد بھائ کچھ براون سے تھے ،شاید امریکیوں کی نقل میں دھوپ لیتے لیتے ضرورت سے زیادہ ٹین ہوگئے تھے۔ اپنے ہی کنبے قبیلے کے تھے ،نازک اندام میسا چیوسسٹسنی بھی پاکستانی نژاد تھیں لیکن سالہا سال سات سمندر پار رہنے سے رنگ بدل گئے تھے اور ڈھنگ بھی ۔ خوش اخلاق ، نرم خو اور بہت پیارے لوگ ۔شاید دس بارہ برس پہلے بھی آئے تھے لیکن اس وقت کا کچھ یاد نہیں تھا تب میں فراک کی آستین سے ناک پونچھنے والی بچی تھی ، شرمیلی سی مہمانوں کو دیکھ کر چھپ جانے والی اور پھر چھپ چھپ کر دیکھنے والی ۔
زارا کا دھیمے دھیمے امریکن لہجے میں بولنے کا انداز اور مورنی ایسی چال ، ایک دلکش مسکراہٹ مستقل چہرے کا حصہ تھی ۔ میں گھنٹوں آئینے کے سامنے ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتی کبھی ان کی سی چال چلتی اور کالج میں لہجہ بھی زارا والا اختیار کرلیا اور ویسی ہی مسکراہٹ سجالی چہرے پر ۔ ہاں گھر میں اگر یہ سب کرتی تو خوب مذاق اڑاتے سب ۔
یہ لوگ حضرت علی ہجویری داتا صاحب کے مزار پر کوئ نذر پوری کرنے جارہے تھے ۔
مزار شریف پر وہی رونق جو وہاں کا خاصہ تھی ، بے تحاشا مردو زن ۔ ہم عورتوں والے حصے میں دھکم پیل سے بچتے بچاتے مزار کی چوکھٹ کے ساتھ والی دیوار کی کھڑکی تک پہنچ ہی گئے ۔ جمعرات تھی اس لیےء بھی شاید زیادہ رش تھا کھڑکی کی سفید جالی سے ” مرکز تجلیات ” نظر آرہا تھا ۔ سفید سنگ مر مر کی جالی پر رنگ برنگے دھاگوں سے جانے کن کن عورتوں نے کیا کیا منتیں باندھ رکھی تھیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی عورتیں مزید دھاگے باندھتی اور کئی کھولتی چلی گئیں ۔
دکھوں ، مصیبتوں کے مارے آنسو بہا رہے تھے ، درودیوار سے لپٹ رہے تھے جیسے یہاں کوئ معجزہ ہوجائے گا اور ان کی بگڑی بن جائے گی ۔ میں تو بچپن سے یہ سب دیکھتی چلی آرہی تھی لاہور دیکھنے بلکہ ” لاہور آکر جمنے والے ” یہاں ضرور حاضری دیتے اورلاہورئیے میزبان راستے دکھانے ، نوسر بازوں کے ہاتھوں لٹنے سےبچانے کو ساتھ ہوتے ۔ .
زارا نے امی جان کی کالی شیشے ٹکی بڑی سی چادر سر سے پاوں تک لپیٹ رکھی تھی جس میں ان کا ملیح چہرہ یوں چمک رہا تھا جیسے سیاہ بادلوں میں چاند ۔
خدا خداکرکےہم دونوں مزار شریف کی جالی تک پہنچیں ایک ادھیڑ عمر مشٹنڈی عورت زارا کو موٹی آسامی دیکھ عورتوں کے ریلے کو دھکیلتی آئ اور زارا کے گلے میں لال گلابوں کا ہار ڈال ، لگی کھر کھراتی آواز میں نعرے مارنے
” بیٹی دے جا صدقہ داتا تیری مراداں پوری کرے”
اچانک زارا نے پلٹ کراسے دیکھا ۔
عجیب جن گزیدہ لگ رہی تھیں وہ اس وقت سفید چہرہ وحشت زدہ لال بھبوکا ہورہا تھا ، آنکھوں سے بھل بھل آنسوبہہ رہے تھے اور ہاتھ ایک بہت سی گانٹھیں دے کر بندھا ڈورا نوچ رہے تھے ۔ وہ ہاتھ سے نہ کھلا تو دانتوں سے کاٹ ڈالا۔ عجیب جنون سا تھا ان کے رویے میں۔
ایک معقول عورت خاصی امیر دکھنے والی صحن میں جھاڑو لگارہی تھی ، جنون زدہ زارا کی توجہ اس کی طرف ہوگئ ۔
مشٹنڈی عورت کی آئی شامت اور نعرہ بلند کربیٹھی ۔
” بی بی نوں حال آگیا جے ”
ہسٹیرک زارا نے جھاڑو چھین دوچار جھاڑو اس کے جڑ دیے تھے اور وہ کمال استقامت سے پٹ رہی تھی ۔ عجب صورت حال تھی ۔
زارا امی جان کی چادر سے باہر ہوچکی تھیں اور چادر بیچاری کٹی پتنگ کی طرح جانے کہاں تھی۔ ہلکے با دامی رنگی ریشمی زلفیں کندھوں پر جھول رہی تھیں ۔نارنجی جوڑا اور گلے میں گلابوں کا ہار پہنے زارا بی عجیب پھٹی پھٹی آواز میں کسی دوسرے سیارے کی زبان بول رہی تھیں ۔
اور میں اتنی دیر سے ستون سے چپکی کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی ۔ اس وقت مجھے سو فیصد یقین ہوگیا تھا کہ زارا پر کوئ آسیبی چیز آگئ ہے ۔ اچانک سیل فون کی آواز سن کر جیسے میں ہوش میں آئ دوسری طرف احمد بھائ تھے جو کہہ رہے تھے زنان خانے کے دروازے پر منتظر ہیں ۔
ہمت کرکے بڑھی ایک بی بی کے ہاتھ سے کلمے لکھی چادر جھپٹی ، میسی چیوسسٹسنی چڑیل پر ڈالی اور ہاتھ گھسیٹ بمشکل عقیدت مندوں کے ہجوم سے زارا کو نکالا ۔ جھاڑو کے تنکوں پر عورتیں ٹوٹ پڑی تھیں تنکا تنکا چھین چھپٹ رہی تھیں ۔
احمد بھائ کلمے لکھی چادر میں چھپی زارا کوتقریبا گھسیٹتے مزار کے احاطے سے باہر نکلنے کی کوشش میں تھے اور ایک ہجوم تھا جو پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا ۔
گھر پہنچ کر زارا خاموشی سے مہمان خانے میں چلی گئیں اور کھانے پر بھی نہ آئیں ، احمد بھائ شرمندہ کھڑے تھے مجھ سے روئیداد سن کر ۔
دوسرے دن ان لوگوں کی واپسی تھی ۔ ہلکی سی دستک دے کر زارا کمرے میں آئیں ۔ اس مشٹنڈی عورت کے لہجے نے آج زارا اور ان کا مرجھایا ہوا چہرہ اور ایک ایک لفظ یاد کرادیا جسے وقت نے دھندلادیا تھا۔
” میں شرمندہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل جو کچھ ہوا ۔ پتہ ہے کیا، میں وہاں منت باندھ کر گئ تھی بہت سال پہلے اولاد کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب میری شادی کو چھ سال گزرگئے تھے ۔ منت تو پوری ہوئ۔۔۔۔۔۔۔ اولاد بھی ہوگئ۔۔۔۔۔ لیکن احمد کی دوسری بیوی سے۔۔۔۔۔۔۔ احمد وہ منت بڑھانے آئے تھے اب ۔۔۔۔۔۔ اور وہ جو موٹی عورت تھی اسی نے ڈورا باندھنے کو کہا تھا ، میں نے اسے بہت سارے پیسے بھی دیےء تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بھول جانا میری بہن پلیز ”
زارا میرے ہاتھ تھامے اسی نرم لہجے میں کہہ رہی تھیں اور میں گنگ تھی ۔ خواب ڈورے باندھنے منتیں ماننے سے کب پورے ہوتےہیں یہ تو مرضی کے مالک ہیں جس جھولی میں جا اتریں ۔

younus khayyal

About Author

4 Comments

  1. گمنام

    دسمبر 5, 2020

    بہت خوب جی مانشاء اللہ وااااہ واااااہ

  2. سید عارف سعید بخاری

    دسمبر 5, 2020

    بہترین جی ۔۔سلا،ت رہیں آمین

  3. گمنام

    دسمبر 5, 2020

    پوری تحریر مزے کی ہے لیکن جو مزہ مشکل امریکی ریاست والے نام کے ذکر نے دیا,واللہ چس آ گٸی۔۔۔بہت خوب مفتی صاحبہ

  4. Farah khan

    دسمبر 5, 2020

    پر درد، احساس لطافت سے بھری ہوئی، خوبصورت اسلوب میں لکھی گئی عمدہ تحریر.. پڑھ کے مزا آیا.. ہمیشہ کی طرح

گمنام کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی