’’ جینے مرنے پر جہاں اختیار نہ ہو،وہاں انسانیت کا سوال ہی مرجاتا ہے۔‘‘
یہ بات وہ پچھلے کئی روز سے سوچ رہی تھی؛اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی ،کہ آخر ہوکیا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ قرنطینہ میں موجود لوگ اسی طرح سسک سسک کر دم توڑ جائیں گے کیا؟ کیاحکومتی لوگ سچ مچ ان کی زندگیاں بچانے کی کوشش میں ہیں؟ کیا حکومت اتنی بے بس ہوچکی ہے ،کہ اُس کے پاس کھانافراہم کرنے کی سکت بھی نہیں رہی؟آخر مناسب انتظام کے ساتھ قرنطینہ سینٹر میں موجود افراد کا علاج معالجہ کیوں نہیں ہورہا؟ اُسے تو اس بات پر بھی حیرت تھی، کہ وہاں کوئی اعلیٰ افسر کیوں نہیںآیاتھا؟ اور یہ کہ ان کا رابطہ بیرونی دُنیا سے بھی کاٹ دیا گیا تھا۔ موبائل فون تک چھین لیے گئے ۔یہ اوران جیسے سوالات وساوس کی طرح اُس کے دماغ کی دیواروں پر ہتھوڑے برساتے تھے؛ سوچ سوچ کراس کا دماغ ماؤف ہوجاتا تو وہ خالی دیواروں کو تکنے لگتی۔اُسے یوں محسوس ہوتا ،جیسے وہ اُس کی قبر کی دیواریں ہوں اور اگلے چند لمحوں میں اُس کے گرد گھیرا تنگ کر کے اُس کی زندگی کا خاتمہ کردیں گی۔
یہ عجیب دن تھے۔ زندگی کی قدر، ضروریاتِ زندگی کی قدر،اپنوں کی قدر، اپنوں سے ملنے کی قدر ،آج اُسے شدت سے محسوس ہورہی تھی اور پھر اپنی بے بسی کو دیکھتے ہوئے ایک ہیجانی کیفیت کا شکار ہوجاتی اور یہ مرحلہ اتنا طویل ہوتا کہ انجانے میں اُس کی چیخیں آس پاس لوگوں کو متوجہ کرنے لگتیں۔ چند شناساچہرے جواُن دنوں میں دیکھے تھے؛اُن پرکہیں بھی اُسے ہمدردی کی لکیر نظر نہ آتی تھی۔ وہ لوگ پیکٹوں میں کھانا بھی لاکر چھوڑ جاتے تھے؛اگرچہ دن میں ایک بارہی سہی لیکن زندگی کی ڈور تواس سے سلامت رہی تھی۔اس کے باوجوداُن چہروں پراسے وحشت اور مخصوص بیزاری نظرآتی تھی۔اُسے یہ بھی محسوس ہوتا تھا، شاید یہ لوگ مجبوراً یہ خدمت انجام دے رہے ہیں؛ انھیں انسانوں سے ہمدردی قطعاً نہیں اور نہ سینٹر میں موجودلوگوں سے کوئی دلچسپی ہے۔
یہ سینٹر ایک مضافاتی علاقے کے اسکول میں بنایاگیا تھا۔ اس کی ویرانی اور خستہ حالی سے معلوم ہوتا تھا، جیسے زمانوں سے غیرآباد ہے۔سینٹر میں سیکڑوں لوگوں کی موجودگی کی اطلاع تھی۔ ایک ایک کمرے میں کئی کئی لوگوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ پورے اسکول میں تین بیت الخلا تھے۔ اُن کی حالت بھی ناقابلِ بیان تھی۔ نشستوں پر پوری طرح پاؤں نہ جمتے تھے۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ لوٹوں پر بھی کائی کی دبیز تہیں تھیں۔ پانی کی کمی اس پر مستزاد۔ ایک ہی صابن کی پتری سے کئی لوگوں کو ہاتھ دھونا پڑتے۔ ایک طرح سے یہ قرنطینہ سینٹروبائی گھر تھا۔ نہیں معلوم یہاں کون کون وبا سے متاثر لایاگیاتھا اور کسے یہاں آکراس بیماری نے اپنی لپیٹ میں لیاتھا؛ البتہ وہ یہاں لائی جانے سے پہلے پوری طرح صحت مند تھی۔اُس کاقصور یہ تھا کہ وہ اُس قافلے میںشامل ہوگئی ،جو دوسرے ملک سے پلٹ رہاتھا۔شک کی بنیاد پر سبھی لوگوں کوجبراً لایاجاتاتھا اوربہ ظاہر اُن کے تحفظ کا کہاجاتا۔
اُس کی تعلیم کا آخری سال تھا۔والدین نے بڑی مشکلوںسے اُس کے اخراجات کے لیے رقم اکٹھی کرکے اُسے باہر بھیجا تھا۔پھراچانک وائرس پھیل گیا اور یہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ہزاروں دوسرے لوگوں کی طرح اپنے وطن پلٹ آئی۔ والدین کو وہ بتا تو چکی تھی، کہ لوٹ رہی ہے لیکن غیریقینی کی اس فضا میںحتمی دن کی وضاحت نہ کر پائی؛اور جب اپنے ملک پہنچی توحکومتی اہل کاروں کے ہاتھ لگ گئی، جنھوں نے سب سے پہلے اُس کا موبائل فون لیا اور پھر دوسرا سامان بھی حفاظتی تحویل میں رکھ لیا۔ اب یہ پورا قافلہ بیان کردہ حفاظتی تحویل میں تھا لیکن انتظامات ایسے تھے ، جو کسی بھی طرح تحفظ کا نقطۂ نظر واضح نہیں کررہے تھے۔اُسے اپنی حماقت کا احساس ہورہاتھا لیکن اب اچھے وقت کے انتظار کے علاوہ اُس کے پاس کوئی راستہ بچا نہ تھا مگر انتظا ر بھی کب تک کیاجاتا؟ کچھ بھی توواضح نہ تھا۔ کوئی شخص یہ بتانے کو تیار نہ تھا، کہ کتنے دن بعد یہاں سے جانے کی اجازت ملے گی۔ان گمبھیرحالات اور گھٹن زدہ ماحول سے اُس کے سوچنے کی قوت بُری طرح متاثر ہو چکی تھی۔ وہ جو بھی سوچتی نتیجتاً بے بسی کاآسیب اُس پر مزید طاری ہوجاتا اور وہ ہیجانی کیفیت میں چیخنا شروع کردیتی۔ کمرے میں موجود باقی لوگ اُسے سمجھاتے ، دلاسہ دیتے، یہاں تک کہ ایک مہربان ڈاکٹر بھی اُسے پیارسے سمجھاتابجھاتا اور وقتاً فوقتاً پھل اور بسکٹوں کے پیکٹ بھی فراہم کرجاتا۔ ایک دو بارتو اُس نے صابن اور ڈیٹول بھی فراہم کیا لیکن اس کی چیخوں میں اضافہ ہوتاچلا گیا۔ مجبوراً کمرے کے دوسرے مکینوں نے بے آرامی کاآسرا لے کرانتظامیہ سے احتجاج کیا اوریوں اُسے اکیلے کمرے میں منتقل کردیا گیا۔
پہلے تو کم ازکم راتوں کی تنہائی ڈستی نہ تھی اور ڈھارس بندھانے والے بھی موجود تھے۔ اب راتوں کو گیدڑوں اور کتوں کی خوف ناک آوازیں اُس کی جان نکال دیتی تھیں۔بے خوابی اور کم خوراکی نے اُس کا مزاج بُری طرح متاثر کردیاتھا۔ اُس نے اس اذیت سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن مسلح پہرے داروں نے بندوق تان کر اُسے واپسی پر مجبورکردیا۔ ایک بار خودکشی کی بھی کوشش کی مگراتفاقاً اہل کارگشت پرتھا اوریوں اسے بچالیاگیا۔
’’ پیارے بچے! زندگی اللہ کی امانت ہے؛ اسے یوں نہیں ضائع کرتے۔ہم سب لوگ یہاں تمھاری زندگیوں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں اور تم عجیب و غریب بلکہ احمقانہ حرکتیں کررہی ہو۔‘‘ ڈاکٹر نے پیار اور اپنائیت سے کہا تواُس کی آنکھیں چھلک پڑیں؛بے طرح رونے لگی۔ اُس کا جی چاہا کہ ڈاکٹر کے سینے سے لپٹ کرروئے لیکن وبا کی احتیاطی تدابیر میں سے اوّلین یہی تھی ،کہ خود کو دوسروں سے دُوررکھنا ہے۔ صرف اتنا کہ پائی:
’’ سر! علاج تو ایک طرف رہا ،یہاں توفاقوں مرنے کی نوبت آچکی ہے۔ زندگی کیسے بچے گی؟‘‘
’’ امتحان کا وقت ہے؛ جانتاہوں وسائل کی کم یابی ہے؛ ڈیمانڈ نہیں پوری ہورہی لیکن حکام کوشش کررہے ہیں۔ ان شاء اللہ جلد مشکلیں ختم ہوں گی۔ بھروسارکھو، بہتر ہوگا۔‘‘
وہ جانتی تھی، کہ ڈاکٹر محض دلاسہ دے رہا ہے۔ وہ خود بے اختیار ہے اور نہیں جانتا کہ یہ سب کیسے ہوگا۔اُس کی خدمت اور خداترسی کی وہ قائل ہورہی تھی لیکن ایسے حالات میں کوئی بھی تو معتبر نہیں ہوسکتا۔اب توسایہ بھی ساتھ چھوڑ رہاتھا۔اُسے ڈاکٹر کی بے بسی کا اس لیے بھی یقین تھا ،کہ وہ بارہا اُس کی منت کرچکی تھی، کہ کسی طرح اس کی گھر والوں سے بات کرادے لیکن وہ جواباً خاموش رہتا۔
ڈاکٹر کی نرمی اورانتظامیہ کے صبر کے باوجود اس کی بدمزاجی بڑھ رہی تھی؛ اُسے یہی بتایا اوراحساس دلایاجاتاتھا ،کہ وہ بدمزاج ہے۔ حالاں کہ اُس نے کسی کو نقصان پہنچانے یاکسی کی حق تلفی کرنے یا پھرچیزوں کو توڑنے کی کوشش نہ کی تھی۔ اپنی ضرورتوں کے لیے آوازاُٹھانا؛ جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی خواہش کرنا کوئی ایسی بات نہ تھی ، جس پر اُسے بدمزاج یا ناشکرا کہا جا سکتا۔ وہ سوچتی :
’’ اگر میں گھر پہنچ گئی ہوتی تویقینا خیریت سے ہوتی اور اپنوں میں خوش ہوتی۔ ان لوگوں نے حفاظتی تحویل میں لے کر میرابنیادی حق چھینا اور اپنوں سے دُور کرکے مجھے مسلسل اذیت دے رہے ہیں۔ جب ان کے پاس مناسب انتظامات نہ تھے توایسا سینٹربنانا ان کی حماقت ہے ، میری بدمزاجی نہیں۔ اور پھر یہ کون ساطریقہ ہے کہ ہر بات جبراًمنوائی جائے؟‘‘
ایک دن عجیب تماشا ہوا۔ کسی نے سینٹر میں چاول کی دیگ بھجوا دی۔ لوگ کئی دنوں سے جی بھر کر نہیں کھاسکے تھے۔سب اپنے کمروںمیں سے نکل آئے اور انتظامیہ کا ہاتھ دیکھے بغیر جھپٹ پڑے۔جس کے ہاتھ میں جتناآرہاتھا، وہ لپیٹ لپاٹ کر اپنے برتن میں ڈالتاگیا۔ کچھ تو ایسے تھے، جو اپنے کپڑوں میں انڈیل رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کروہ سٹپٹا گئی۔ بھلا یہ بھی کوئی طریقہ ہے؟ جب یہ دیگ آئی ہی سینٹر والوں کے لیے ہے توپھراس طرز کو اختیار کیوںکیاگیا؟ اُسے محسوس ہواجیسے اُس کی داخلی تہذیب اور شخصی رکھ رکھاؤ نے اُسے بھوکا رکھا ہو؛ورنہ دوسرے لوگ اسی طرح پیٹ بھرتے ہیں۔بھوک کا فلسفہ اُسے کچھ کچھ تو سمجھ آچکا تھا لیکن یوں چھیناجھپٹی بہ ہرحال اُسے ناگوار معلوم ہوتی تھی۔پھر یہ تماشااکثر ہونے لگا؛ معمول کا کھانا بھی اسی طرح رکھ دیاجاتا اور لوگ اپنے کمروں سے نکل کر جھپٹ پڑتے۔ وہ سوچ کر اور طے کرکے بھی بھوک کا یہ وحشیانہ طرز اختیار نہ کرسکی۔ نتیجتاً غنودگی اورنقاہت نے اُس کے جسم میں ڈیرے ڈال لیے۔ ڈاکٹر گاہے گاہے آتا اور اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتا:
’’ دیکھو! جب سب لوگ اس طرح کھاتے ہیں توتمھیں اعتراض نہیں ہوناچاہیے، بلکہ تمھیں اکثریت کا طرز ہی اختیارکرنا چاہیے۔‘‘
’’میں معترض کب ہوں؟ سب کھائیں لیکن مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا۔‘‘
’’فاقوں مروگی کیا؟‘‘
’’مرجاؤں‘‘
پھرڈاکٹر نے ایک اہل کارسے سفارش کی ،کہ اس بچی کو کھاناکمرے میں دیاجائے۔کمزور ہے، حساس ہے، دعائیں دے گی۔
ڈیوٹی پر مامورشخص پہلی ہی شام کا کھانا لایا تویہ کہولت اورنقاہت سے دُہری ہوئی پڑی تھی۔ گلاب کی گٹھری جو بتدریج خاشاک میں بدلتی جارہی تھی۔اس کرب ناک اورقابلِ رحم زندگی کا تواُس نے تصور بھی نہ کیاتھا۔ وہ تو یہ سوچ کرباہر پڑھنے گئی تھی ،کہ پلٹے گی تواپنی قوم کی خدمت کرے گی۔ ماں باپ کا نام روشن کرے مگراب توزندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ نہیں معلوم اُس کی زندگی کی کتنی ساعتیں باقی تھیں؛ مزیدکتنی اذیت بھوکنااس کے کرموں میں لکھا تھا؛تنفسی تبادلے کی اخیر کب ہونی تھی؟وہ سوچ رہی تھی:
’’ جینے مرنے پر جہاں اختیار نہ ہو،وہاں انسانیت کا سوال ہی مرجاتا ہے۔‘‘
آنے والے شخص نے کھنکھارتے ہوئے گلاصاف کیا اور پھرقدرے بیٹھی ہوئی آواز میں گلاب کی سمٹی ہوئی گٹھری پرحریصانہ نگاہ ڈالتے ہوئے مخاطب ہوا:
’’سُنو! میرے ساتھ بھوک کا تبادلہ کر لو،سُکھی رہو گی۔‘‘