افسانہ نگار:محمدجاویدانور
"ہزار بار سمجھایا تھا کہ بچوں کو تساہل پسند نہ بناؤ”..،،، ” انہیں اپنی زندگی خُود گُزارنی ھے۔ زندگی آسان ھے نہ کھیل تماشہ”—– "لاکھوں پییش بندیاں کر کے بس ایک حد تک ھی آسائش اور سُکھ کی گارنٹی دی جا سکتی ھے” …..،، ” ہر کسی کو اپنی زندگی با لآخر خُود ھی جینا پڑتی ہے”…. "کئی بار مواقع آتے ھیں کہ انسان بالکُل الف ننگا، بے یار و مدد گار ، تن تنہا لق و دق صحرا میں زندگی کا سامنا کرتا ہے، …… دولت وسائل ، یار دوست ، رشتہ دار کُچھ بھی مدد نہیں کر سکتے”….. "مسئلہ اور بھی گھمبیر ھو جاتا ہے جب یہ صُورت حال جسمانی کی بجائے ذہنی ہو”۔
ارسلان کا اپنی بیوی کے ساتھ یہ مکالمہ روز کا تھا۔اُس نے اپنی زندگی کی ابتدا میں جو کٹھنایاں جھیلیں اُس کا صلہ اُسے آخر عُمر میں خُوب ملا …. منے کباڑی کے بیٹے نے زندگی رینگ رینگ کر شُرُوع کی…، کباڑ کی چھوٹی سی دُوکان بھلا امانت علی کو کیا دے سکتی تھی؟؟؟ ۔ خُود تو ساتویں جماعت سے آگے نہ پڑھ سکا، پر بیوی انٹر پاس مل گئی …..، یہ ماں ھی کے ڈائیجسٹوں اور فلمی رسالوں کے مُطالعہ کا فیضُ تھا جو اُس کا نام ارسلان تھا. ورنہ باپ کی طرف سے وُہ زیادہ سے زیادہ لال دین ھو سکتا تھا۔
ارسلان کو باپ نے پُورا زور لگا کر پڑھایا۔ اکلوتا تھا ۔ محلے میں نئے کُھلے پرائیویٹ انگریزی سکُول میں داخلہ دلوایا۔ صُبح جب خاکی نیکر ، نیلی شرٹ اور لال ٹائی ، پہن کر باپ کی سائیکل کے ڈنڈے پر بیٹھ کر سکُول جاتا تو امانت اُسی سکُول میں گاڑیوں سے اُتر کر اُچھل اُچھل سکول جاتے بچوں کے سنگ ارسلان کو دیکھ کر خُوشی سے جھُوم اُٹھتا۔ اُسے کلاس ٹیچر کی ارسلان کے بارے میں اچھی رائے یاد آتی تو وُہ تیز تیز پیڈل مارتا گُنگُنانے لگتا۔
زندگی کی گاڑی لشٹم پشٹم چلتی تو ھے ھی۔ وقت بھی گُزرتا ھے اور اپنے نقش بھی چھوڑتا ھے۔ اور اپنے اس فیصلہ میں وقت قدرت کا بھی اسی طرح پابند ہوتا ہے، جیسا کہ امانت تھا،،،،،
سائیکل کے پیڈلوں کو کُبڑا ھو ھو کر دھکیلتے امانت نے زندگی کی بھاری گاڑی کو اتنا تو چلا ھی دیا کہ ارسلان کالج تک جا پُہنچا۔ کالج میں مکوڑے نے پر نکالے…… تو وہ کالج کے بوسیدہ ھوتے کمروں اور ناہموار گراؤنڈز کی بجائے پُر رونق زنانہ اشیائے ضرُوریہ والے بازاروں ، گرلز کالج کے باھر لگی ریڑھیوں اور معرُوف بس سٹینڈوں پر زیادہ پائے جانے لگا….. اسی دشت نوردی نے اسے شائستہ سے ملوایا ، جو بالآخر اُس کی جیون ساتھی بنی ، وھیں اُس کی تعلیم بھی انٹر سے آگے نہ جانے دی۔
ارسلان شادی کے بعد شائستہ کا ساتھ پا کر ایسا سُدھرا جیسے اتھری گھوڑی لگام سہار کر جو چند دن اُچھل کُود کرتی ھے ، تو راس ھو کر لگام کو رھبر مان ، اُسی کے سہارے اُڑے پھرتی ھے۔ اُس نے زندگی کا جوا اُٹھایا، تو نہ تھک کے بیٹھا نہ دمُ لیا ….. بس چل سو چل۔
باپ کی کباڑ کی چھوڑی چھوٹی سی دُوکان میں برکت ڈلی تو ارسلان سکریب ڈیلر بن گیا…… قسمت کی دیوی مہربان ھوتی ھے تو اُلٹے ھاتھ بھی سیدھے پڑتے ھیں… مٹی کیا گوبر میں بھی ہاتھ ڈالیں تو وہ سونا بن جاتا ہے…..
ایک بڑی لاٹ ارسلان کے گلے یُوں پڑ گئی کہ پُول کر کے بولی دلانے والی پارٹی ایک فراڈ میں پکڑی گئی اور ارسلان جو کسی کے بل بُوتے پر بڑھا کر بولی دے بیٹھا تھا سودا اُٹھانے کا پابند ھو گیا ۔ اتفاقاً اُنہی زمانوں میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آنے پر سمُندری راستے سے سکریپ کی درآمد میں رخنہ پڑا اور مُلکی منڈی میں وُہ عارضی تیزی آئی کہ اس کے وارے نیارے ھو گئے۔ ابا کی زنگ خُوردہ بائیسکل پر سکُول جانے والا ارسلان چمچماتی گاڑیوں اور شہر کی سب سے مہنگی ھاؤسنگ سوسائیٹی میں بڑے بنگلے کا مالک بن گیا۔ باپ کی جمع پُونجی کپڑے کی تھیلی میں چند نوٹوں کی شکل میں لکڑی کی کرم خُوردہ الماری کی مقفل دراز سے کبھی آگے بڑھ نہ پائی تھی مگر اب بینک مینیجر ڈپازٹ لینے اور قرض کی حد کو تا حد نظر بڑھانے کو خُود تیار اُس کے دفتر سے اس سے ملنے کو ٹائم مانگتے پھرتے ۔
اللہ نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا جو شہر کے بہترین انگریزی سکُولوں میں داخل کروائے گئے۔ لمبی چمکدار گاڑیوں میں براق وردی والا ڈرائیور گن مین کے ساتھ ھر بچے کو سکُول چھوڑنے جاتا ۔ دُنیا کی ھر نعمت ایک فون کال یا وٹس ایپ میسیج کی دُوری پر رہ گئی۔
ارسلان نے پُورا بچپن جس کشمکش ، محنت ، جدوجُہد میں گُزارا تھا اور جس طرح درمیانہ طبقہ بلکہ تقریباً غُربت سے ترقی کرتے کرتے اُسے حالات سے جنگ کر کے زندگی بسر کرنی پڑی اُس نے اُسے اعتماد اور طاقت عطا کی تھی۔ بچپن سے لے کر زندگی بھر اُس کو بھانت بھانت کے لوگوں سے مُعاملات کرنا اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا پڑا ۔ اُس نےمُفلسی، نارسائی، مایُوسی ، بیماری ، ذلت ، کسمپُرسی کو بارھا اپنی پائنتی بیٹھے دیکھا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ اتنی مُشقت اور تجربے کے بعد وُہ زندگی کی ھماھمی اور سترنگی کا مُقابلہ کر سکتا ھے۔
پر اُسے ھمیشہ یہ فکر رھتی کہ اُس کے بچے بڑی سہُولت کے ساتھ حفاظتی دیواروں کے اندر پل رھے ھیں اور زمانے کا سرد و گرم اُنہوں نے چکھا ھی نہیں ۔اگر زندگی نے مُشکل رُخ دکھایا تو شائد یہ اُن کٹھنایوں کا مُقابلہ ھی نہ کرسکیں جو کسی زی رُوح کو بے پرواہ فطرت دکھا سکتی ھے۔
یہ کشمکش میاں بیوی میں کئی بار اختلاف بلکہ ناچاقی اور نزاع تک کا سبب بن چُکی تھی۔
” اللہ نے انہیں سہُولتیں دی ھیں تو یہ کیوں اُن کا پُورا فائدہ نہ اُٹھائیں” ….. "آپ کا بس چلے تو آپ تو انہیں ان کے دادا کی زنگ خُوردہ سائیکل کے ڈنڈے پہ بٹھا دیں” ۔ "آپ کا باپ گنج منڈی کا کباڑیہ تھا جبکہ انکا باپ شہر کا بڑا سرمایہ دار، سٹیل فرنس اونر ھے”۔
"مُعززین شہر میں سے ھے”۔ "کیوں یہ ذرا ذرا سے کام کےلئے ھما شما کے متھے لگیں؟؟؟” ۔” کیوں معمُولی کاموں کے لئے لائنوں میں دھکے کھائیں”…… "یہ پڑھ لکھ کر بڑے لوگ بنیں گے ، انہیں زندگی میں ایک بڑے معیار سے نیچے اُترنے کے ضرُورت ھی نہیں پڑے گی ” شائستہ کی دلیل ھوتی۔
"لیکن میں بھی یہ نہیں کہتا کہ ھر کام انہیں خُود کرنا چاھئیے۔ میں تو کہتا ھُوں کہ انہیں ھر کام کرنا آنا چاھئے۔ زندگی کو اندر گھُس کے دیکھنا چاھئیے۔ اچھے بُرے کی پرکھ ھونی چاھئی۔ زندگی کا ھر رنگ، ڈھنگ ان کے تجربے مُشاھدے اور برداشت میں اضافے کا باعث بنے گا۔”
یہ دانتا کل کل جب جی چاھے شُرُوع ھو جاتی اور تا دیر بحث مباحثے اور گرما گرمی کے بعد بے نتیجہ ختم ھو جاتی۔ کئی بار ارسلان سوچتا کہ شائستہ شائد صحیح کہہ رھی تھی ۔ کہیں وُہ اپنے ھی بچوں سے حسد تو نہیں کرنے لگا۔ اُس کا باپ غریب کباڑیہ تھا ۔ اُس نے جو بھی کر سکتا تھا اُس کے لئے کیا ۔ کُچھ بچا کے چھُپا کے نہیں رکھا۔ اُس کےلئے دن رات ایک کیا ۔ خُود بھُوکا ننگا رہ کر بھی اُسےمقدُور بھر عیاشی کروائی ۔ اب جو اُس کے پاس بچوں کے نصیب کا تھا وُہ اُنہیں دے رھا تھا – اُس نے اپنے حصے کی جو ٹھوکریں کھائیں اور پُختہ ھُوا تو وُہ حالات اُس کا مقدر تھے۔ اب جو اُسے ملا وُہ اُس کی اولاد کا حصہ اُن کا مُقدر ھے۔ بےشک اُس کی خواھش تو یہ تھی کہ تجربات اور حوادث کی بھٹی اُس کےبچوں کو پکا کر لال کردے اور وُہ زمانے کے سردوگرم سہہ کر سخت جان ھو جائیں لیکن یہ کیسے مُمکن تھا کہ وُہ رھیں تو موجُودہ حالات میں اور تجربات و مُشاھدات گُزشتہ زمانہ اور حالات کے حاصل کریں- یہ ایک کشمکش اُس کے ذھن میں چلتی رھتی اور کبھی کبھی تنہائی میں بھی وُہ اسی اُدھیڑ بُن میں جُت جاتا۔
آج جب ارسلان حسب معمُول ، صُبح ھی صُبح تیار ھو کر اپنے دفتر کے لئے نکلا تو بچے ، جن کے سکُول چُھٹیوں کی وجہ سے بند تھے، سب سوئے ھُوئے تھے۔ اُسے یاد آیا کہ صُبح تین بجے جب اُس کی آنکھ اچانک کھُل گئی تو بچوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آوازیں ابھی آ رھی تھیں ۔ مطلب یہ کہ حسب معمُول چار بجے کے قریب سوئے ھونگے ، بارہ ایک بجے خیر سے اُٹھیں گے اور باری باری ناشتہ آرڈر کریں گے۔ اُس کے چہرے سے تشویش مترشح تھی۔ اُس نے گھر سے باھر نکلنے کے لئے مُشترکہ لابی کا دروازہ کھولا تو لان کی طرف سے آپس میں لڑتی لڑاتی بھُوں بھُوں کرتی دو کالی پیلی بھُڑیں اُڑتی دروازے کی طرف لپکیں۔ اُسے ایک لحظے کے لئے وُہ وقت یاد آگیا، جب اپنے باپ کے ساتھ سائیکل پر سکُول جاتے ھُوئے گلی کے نُکڑ پر لال پیلے پکے بیروں کے بوجھ سے لدی ، جھکی ھُوئی بیری کے نیچے سے سائیکل گُزارتے ہوئے ایک بھڑ نے اُسے گال پر کاٹ کھایا تھا۔ دادی کے لوھا مس کرنے والا ٹوٹکا آزمانے کے باوجُود اُس کا چہرہ ایک طرف سے پھُول کر کُپا ھو گیا تھا- سوزش آنکھ تک جا پُہنچی ۔ تین دن بعد جب سوزش اُتری تھی تو اسے کیسی کیف آور کھُجلی محسُوس ھوتی تھی ۔
اُس کے چہرے کی تشویش ھلکی پُر اسرار مُسکراھٹ میں بدل گئی ۔ اُس نے اُوپر دیکھا تو دروازے کے طاق میں بھڑوں کا ایک بڑا چھتا نظر آیا ۔ اُس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک سکہ نکالا اور زور سے چھتے کی طرف تاک کر اُچھالا ۔ سکے نے چھتے کے عین وسط میں ٹکرا کر طُوفان اُٹھا دیا ۔ بھڑوں کا سیلاب اُٹھتا نظر آیا جو گھر کے چاروں طرف پھیلنے کو لپکا۔ اُس نے جلدی سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور بیرونی دروازے کی طرف چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد جاوید انور