از:غافر شہزاد
ایصالِ ثواب کے لیے یوں تو لوگ لواحقین کے گھروں میں جاتے ہیں اور مرحوم کے بارے میں اچھی اچھی باتیں اور اس کے ساتھ گزرے خوش گوار لمحوں کی یادیں تازہ کرتے ہیں مگر جب کسی علمی و ادبی شخصیت کا انتقال ہو جاتا ہے، اس کے لیے مختلف علمی و ادبی تنظیمیں تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کرتی ہیں۔ کوئی چھوٹا ادیب ہو تو کسی اجلاس میں عام طور پر ایک تعزیتی قرارداد پر ہی گزارا کر لیا جاتا ہے۔اگر کوئی بڑے پائے کاادیب ہو تو ایک آدھ تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کر دیا جاتا ہے اور اگر بہت ہی اعلیٰ پائے کی علمی و ادبی شخصیت انتقال کر جائے تو مختلف تنظیمیں کئی ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کرتی ہیں۔ اس موقع پر کالم نگار اپنے کالموں میں مرحوم کا ذکر کرتے ہیں اور پڑھنے والوں اور مرحوم کے لواحقین کے ساتھ اس دکھ کی گھڑی میں شریک ہوتے ہیں۔ مرحوم اختر علی تھانوی بھی علم و ادب کی ایسی ہی بڑی شخصیت تھے اس لیے شہر میں ان کے بارے میں یکے بعدد یگرے کئی ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیے گئے۔
اختر علی تھانوی نے اوائلِ عمری میں ایک بڑا تخلیقی کام کر کے بے پناہ شہرت حاصل کر لی تھی اور پھر دو دہائیوں تک کچھ نہ لکھا۔ان کے اولین فن پارے کی شہرت کا ڈنکا چہار عالم ایسے بجا کہ مرحوم کو خود حیرت ہونے لگی کہ یہ میں کیا لکھ بیٹھا ہوں۔مرحوم کا علمی و ادبی حلقوں میں اٹھنا بیٹھنا نہ ہونے کے برابر تھا اس لیے مرتے دم تک ان کی شخصی زندگی ایک راز بلکہ کہہ لیجیے ایک معمہ ہی بنی رہی۔ مرحوم کے گھر والوں اور بیوی بچوں کے بارے میں بھی کسی کو کچھ علم نہ تھا۔مرحوم کی ذاتی عادات اور زندگی کے بارے میں بھی کچھ زیادہ معلوم نہ تھا البتہ ان کے تخلیقی سفر کے بارے میں لوگ بات کر سکتے تھے۔مگر تعزیتی ریفرنس کوئی ادبی یا تنقیدی نشست تو نہیں ہوتی کہ کسی کے فن کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر لی جائے۔
جب ایک سے زیادہ تعزیتی ریفرنس پہلے ایک شہر میں اور پھر ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں منعقد ہوئے تو قارئین کو مرحوم کی زندگی کے بارے میں علم ہوا۔اب جو بھی معلوم ہوا، وہ ٹکڑوں کی شکل میں مختلف لوگوں نے الگ الگ باتیں کی تھیں، ان کو جوڑ کر شخصیت کا مکمل سراپا کسی کے لیے پیش کرنا ممکن نہ تھا مگر رفعت پرواز ایک ایسا صحافی تھا جس نے کم و بیش تمام ریفرنسز میں شرکت کی تھی،کس نے کیا کہا؟ اس کے ذہن میں تھا؟۔ اس لیے سنڈے کے ایڈیشن میں مرحوم اختر علی تھانوی کے بارے میں فیچر لکھنے میں اسے کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ مگر جب یہ فیچر چھپا، اس سے مرحوم کی جوشخصی تصویر بنی وہ اس قدر الگ تھی کہ رفعت پرواز کو اس کے لیے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور کئی سوال کھڑے ہو گئے۔
رفعت پرواز نے لکھا تھا کہ مرحوم کو کھانا ہمسائے میں موجود نوکر اپنے گھر پکے ہوئے کھانے میں سے کھلاتے تھے، جب کہ مرحوم کی شادی شدہ بیٹی اسی ہائوسنگ سوسائٹی میں دو کنال کے گھر میں رہتی تھی اور حیرت اس بات پر تھی کہ باپ اور بیٹی میں کوئی ناراضی بھی نہ تھی۔اس بات کا علم ہر گز نہ ہو پاتا اگر مرحوم کی یہ بات تعزیتی ریفرنس میں نہ بتائی جاتی کہ جب ان سے ملک کے ایک بڑے ایوارڈ کے ملنے پر پوچھا گیا کہ وہ ایوارڈ کے ساتھ پیش کی جانے والی رقم کا کیا کریں گے؟ اس کے جواب میں مرحوم نے کہا کہ کچھ پیسوں سے وہ اپنے ہمسائے میں موجود ایک نوکر کی بیٹی کی شادی کریں گے۔تعزیتی ریفرنس میں ان کی اس بات کو اعلی اخلاقی قدر کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔مگر سچ یہ تھا کہ یہ وہی بچی تھی جو گذشتہ سات سال سے گھر کی پچھلی دیوار کے اوپر سے مرحوم کو کھانا دیتی رہی تھی۔بہت سے مقررین نے اس بات پر اتفاق ظاہر کیا کہ مرحوم کی تحریروں میں اداسی اور تنہائی بہت زیادہ ہے۔اس پر نقادوں نے کہا کہ ہر بڑے فن کار کے ہاں ایک ازلی تنہائی ملتی ہے جو عظیم فن پارے کی تخلیق کا سبب بنتی ہے، مگر ریفرنس کے بعد ایک صاحب نے مذاق میں ایک جملہ کہہ دیا جو رفعت پرواز کے کانوں نے اُچک لیا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ مرحوم ایک بار کہنے لگے، میری بیوی اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی ہے، زبان دراز ایسی کہ جب وہاں اس کو کوئی نہیں ملتا تب وہ میرے گھر میری بے عزتی کرنے چلی آتی ہے۔ایک صاحب نے کہا کہ جب میں ان سے ٹیلی فون پر بات کرتا کہ میں ان سے ملنے ان کے گھر آرہا ہوں، تو کہتے،تم نہ آئو، میں خود تمھارے گھر آ جاتا ہوں۔ایک اور خاتون نہایت فخر سے بیان کر رہی تھی کہ میں جب بھی ان سے ملنے کی بات کرتی، وہ خود میرے گھر آ جاتے۔ وہ صاحب اور خاتون اس بات سے مرحوم کی عظمت بیان کر رہے تھے۔مگر جب مرحوم کی آخری سال گرہ کے موقع پر ایک سرکاری ادارے کی جانب سے پھول اور کیک لے کر ان کے گھر جانے کا پروگرام بنا، تو انھوںنے صاف کہہ دیا کہ میرے پاس اس وقت کوئی نوکر یا گھر کا کوئی فرد دستیاب نہیں ہے، اس لیے جو کچھ لانا ہے، کرنا ہے ان کے ہی ذمے ہے۔ رفعت پرواز نے اس ساری صورت حال کے اصل اسباب لکھ دیے تھے جس کی وجہ سے بہت سے عقی دت مندوں کے جذبات مجروح ہوئے تھے۔
جب مرحوم کا دوسرا تخلیقی کام شایع ہوا تو از راہِ تفنن مرحوم نے اس پر لکھ دیا کہ نو ماہ سے پہلے کوئی نقاد اس کے بارے میں اپنی رائے نہ دے۔نقادوں نے نو سال تک اس پر چپ سادھے رکھی۔اس بات کا مرحوم کو بہت گلہ تھا کہ ان کی تخلیقات کی پذیرائی عوام نے تو کی مگر علمی وادبی شخصیات نے ان کے کام کو ڈسکس نہیں کیا، مگر وہ یہ بات بتاتے نہیں تھے کہ انھوں نے خود ہی تو پابندی لگائی تھی۔ایک تعزیتی ریفرنس میں نظامت کرنے والے صاحب نے بتایا کہ ان سے تھوڑا سینئیر نسل کی ایک ادیبہ نے ان پر سرقے کے الزامات لگائے تو انھوں نے کہا کہ میں نے ان کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے اسلوب کو کچھ جگہوں پر کاپی کیا ہے۔ان کی ہم عصر ایک خاتون نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میں نے ان کو اپنے انگلش ناول کا مسودہ پڑھنے کے لیے دیا تھا، انھوں نے میرے کام کے کئی حصے من و عن اردو میں اپنے کام میں شامل کر لیے ہیں۔اس بات پر مقررین نے کہا کہ ہر بڑے تخلیق کار پر ایسے الزامات لگتے رہتے ہیں مگر رفعت پرواز نے ایک ادبی میگزین میں لکھے ہوئے ایک مضمون کے کچھ حصے اپنے فیچر میں شایع کر دیے جہاں مضمون نگار نے نہایت عرق ریزی سے ان سرقہ شدہ جملوں اور پیرا گراف کی نشان دہی کی تھی۔ایک صاحب نے اپنی گفتگو میں ان کو زندہ دل، ہنس مکھ اورمعصومیت کی وجہ سے کھلکھلاتا ہوا بچہ قرار دیا جب کہ اسی محفل میں ایک اور صاحب نے اس رازسے پردہ اٹھایا کہ وہ فیس بک پر نئی نسل سے جڑے ہوئے تھے اور اپنی ہر تکلیف، بیماری اور پریشانی کو فیس بک کے توسط سے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتے تھے۔اسی طرح کے اور بھی کئی تضادات مرحوم کی شخصیت میں ابھر کر سامنے آئے جن کا تذکرہ رفعت پرواز نے اپنے فیچر میں کر دیا تھا۔رفعت پرواز شاعر ادیب نہیں تھا، ایک اخبار کا فیچر رائٹر تھا، اس نے وہی لکھا جو اس کو نظر آیا، وہ اس سے الگ ایک تخلیق کار کے بارے میں کچھ اور لکھ بھی نہیں سکتا تھا اس لیے کہ صحافت میں اس کی تربیت ایسی ہی ہوئی تھی کہ جو دکھائی دیتا ہے، جو سنائی دیتا ہے، وہی لکھیں۔ ادیب اور صحافی کے کام میں بال برابر باریک یہی تو فرق ہوتا ہے۔