اس نے گھر کی صفائی کر لی تھی، بس باورچی خانے کا فرش دھونا باقی تھا ،جہاں خالہ ابھی تک کھچڑی بنا رھی تھیں ۔ وہ انگن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ کر چڑیوں اور کبوتر وں کو دانا چگتے ھوئے دیکھ رھی تھی -ذھن میں نانی اماں کی سنائی ھوئ کہانی کی بازگشت نے اس کا دھیان بھوک سے ہٹا دیا تھا جو کھچڑی کی خوشبو سے چمک اٹھی تھی ۔ چڑا لایا چاول کا دانہ ، چڑیا لائی دال کا دانہ .. دونوں نے مل کر کھچڑی پکائی۔۔ اس نے مڑ کر خالہ کی طرف دیکھا ، کھانے کی چوکی پر بیٹھی تھیں سامنے رکھی پلیٹ میں کھچڑی اوپر تک بھری ہوئی تھی جیسے چھوٹی سی پہاڑی ۔
اس کے پیٹ میں دوڑتے چوہوں کی رفتار تیز ہو گئی تھی ، نانی اماں کی آواز آرہی تھی "دونوں کھانے بیٹھے .. تو چڑیا بولی . مجھے تو گھی لا کے دو ۔ایسے تو نہیں کھاوں گی ” ۔ مگر میں ایسے ھی کھا لوں گی ۔ اس کے منہ سے نکلا .
خالہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا – انھیں اس کی آواز ایک بڑبڑاہٹ کی طرح سنائی دی-
وہ اب کھچڑی میں گھی اور دہی ڈال رھی تھیں ۔ اس کا دل چاہا کہہ دے ” ہاں مجھے بھی کھانا ہے -کل سے گھر میں کچھ نہیں پکا -آپ گھر کی صفائی کے پیسے دیں گی تو شاید ابا کچھ کھانے کو دے دیں ۔
جب سے اس کی امی کا انتقال ہوا، محلے میں ایک یہ منہ بولی خالہ ہی تھیں جو گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے بدلے میں اس کی ضروریات کا خیال کر لیتی تھیں- ابا بھی مزدوری پر جاتے ھوئے بےفکری سے خالہ کے گھر چھوڑ جاتے – یوں تو خالہ خاصی بد مزاج تھیں لیکن اس کے ساتھ کبھی جھڑک کر بات نہ کرتیں البتہ تازہ کھانے میں سے کچھ دینا پسند نہیں کرتی تھیں
اس وقت بھی اچار کی پھانک کے ساتھ بڑے مزے سے کھچڑی کھاتے ہوئے کسی سے موبائل پر باتیں بھی کرتی جارہی تھیں
” ارے ثمینہ بہن کیا بتاوں ، پیٹ کی حالت اچھی نہیں -اج پھر کھچڑی بنائی ھے -کہاں میں بریانی اور قورمے کے بغیر نوالہ نہیں توڑتی تھی اب یہ پھیکے کھانے مقدر میں رہ گئے ہیں ، یہ کہتے ھوئے پلیٹ میں بچے ہوئے چاولوں کو ایک بڑے نوالے میں سمیٹ کر منہ میں ڈال لیا ۔ ادھر خالہ کا منہ چل رہا تھا، ادھر اس کے دماغ میں نانی کی کہانی کا اخری حصہ ٹیپ کے بند کی طرح گھومے جا رہا تھا ” دونوں نے مزے سے کھچڑی کھائی ……….. – خالہ اب خالی پلیٹ دھو رہی تھیں ، سنک میں گرتے پانی کے شور میں انہیں سنائی نہ دیا وہ بڑبڑا رہی تھی خالہ نے تو اکیلے ہی ساری کھچڑی کھالی –
——