از: ممتازاطہر
مٹی، پانی، آگ، ہَوا ہیں، کیسے کھیل میں گم
کھیل جمانے والا اپنے اگلے کھیل میں گم
اب جو کھیل کی لَے بدلی تو پایا کھیل کا بھید
ورنہ ہم تو اب تک تھے اُس پہلے کھیل میں گم
کھیل رہے تھے کئی ستارے اپنا اپنا کھیل
ایک ستارہ کر دیتا تھا رستے کھیل میں گم
کیا تھے اُن کے خال و خد اور کیسے اُن کے رنگ
جسم ہوئے بازار میں گم اور چہرے کھیل میں گم
جانے بھیگی ریت پہ رکھا کس نے ایک چراغ
تم تھے اپنے کھیل میں گم، ہم اپنے کھیل میں گم
جیون کا یہ کھیل بھی اطہرؔ پورا کھیل نہ پائے
ہم بھی تھے اس کھیل میں شاید آدھے کھیل میں گم