تصور ِ شعر میں بنیادی اہمیت اس تصور کی ہے جو ایک تصویر کا حامل ہے۔ اسے امیج سازی کہنا بہتر ہے۔امیج یا تصویر کا تصور وہ بنیادی خاکہ ہے جس پر شعر نے تعمیر ہونا ہے۔امیج واضح ، غیر مہمل ، کنکریٹ اور Tangible ہونے کے اوصاف رکھنے کی وجہ سے شعر کی ساخت کو قوت فراہم کرتا ہے اور قاری کا ذہن اس امیج کو بآسانی دوبارہ خلق کر سکتا ہے۔قلم ِ عفو ، صحرائے قرار، غبار ِ عشق، دشت ِ ہوس جیسی تراکیب غزل کے قاری کے لیے آسانی سے سمجھ آنے والی ہیں۔ مگر ان کو ذرا نزدیک ہو کر دیکھنے اور غور کرنے سے کھلے گا کہ عفو کا قلم ، صحرا کا قرار، عشق کا غبار اور ہوس کا دشت کہیں وجود نہیں رکھتا۔یہ شعر کا سٹیریو ٹائپ تصور ہے جو شمال سے آیا اور یہاں رائج ہی نہیں ہوا سکہ رائج الوقت ہو گیا۔اردو شاعر اسی فارسی غزل کے تتبع میں اسی کو اپنائے ہوئے ہے۔غزل کے قاری کے لیے وہ تصور ِ شعر جو اس سٹیریو ٹائپ تصور سے جدا ہو گا اس سے حظ نہیں اٹھا سکے گا۔ایک مشہور ترکیب دشت ِتنہائی ہے اس ترکیب میں ایک جاندار اور ایک بے جان شے کو مرکب بنایا گیا ہے۔دشت کی پراسراریت یا سفینے کے دریا میں ہونے کی تصویر متصور کی جا سکتی ہے جب کہ غزل کے سفینے اور تنہائی کے دشت کی کوئی تصویر کوئی ذہن نہیں بنا سکتا۔جب شے موجود ہی نہ ہو تو اس کا تصور کیا بنے گا۔یہ سٹیریو ٹائپ تصور شعر ملک ِ فارس سے آیا اور ہمارے شعری ذہن کی پرداخت کا بنیادی پتھر بن گیا۔
سٹیریو ٹائپ کا ایک معنی دقیانوسی تصور ہے۔اسے عام لفظوں میں بھیڑ چال کہنا زیادہ فصیح ہے۔جس شاعری کے عقب میں تصور ِِ شعر ناپید یا مستعار یا بھیڑچال کا زائدہ ہی سٹیریو ٹائپ ہے اور از کار رفتہ اور دقیانوسی ہے۔
تصور ِ شعر کی ساخت میں ذات اور اجتماعی ذات ہر دو برابر کی اہمیت حامل ہیں۔اجتماعی ذات سے تخلیق کار اپنا شعری رزق حاصل کرتا ہے۔یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ وہاں سے کیا حاصل کرتا ہے سٹیریو ٹائپ خیالات یا نیا شعری وژن۔ایک استعاراتی نظام معنی کو گہرا اور پیچیدہ بناتا ہے۔
جس شعر کے عقب میں تصور ِ شعر کارفرما نہیں ہوتا یا تصور ِ شعر کی طاقت نہیں ہوتی وہ شعر بلا تخصیص کوئی بھی کہہ سکتا ہے یہی سٹیریو ٹائپ شعر ہے۔
اس میں سب سے بڑی حماقت چلتے فیشن کو اختیار کرنا ہے۔ایک طرح کا اظہار تخلیق کار کی تو موت کا باعث بنتا ہی ہے اس کا بچا کھچا شعری سرمایہ بھی فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔شعری سرمائے کا افلاس اسی مروج فیشن کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔یہ شعری افلاس شاعر کی مصرع سازی کی بناوٹ میں ہی ظاہر ہو جاتا ہے اور مصرع سازی ہی شاعر کی ساری صلاحیتیں کھا جاتی ہے۔
اس ضمن میں میں مابعد جدید نظریات کے شارح فہیم اعظمی کی ایک بات کوٹ کیا کرتا ہوں کہ ” مصرع سازی اور محض اوزان کی نوک پلک درست کرنے والے میرے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ ”
۔ہر دور میں معدودے چند شاعر ہوتے ہیں جو آسانی سے آرکی ٹائپ سے اپنی مرضی کا انتخاب کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ اطلاقی طور پر کہیں تو شاعروں کی کثیر تعداد اس پر قادر نہیں ہے۔ایک طرح کی شاعری اور ایک طرح کا شعر کہنا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ان کا تصور ِ شعر ناقص یا اوسط درجے کا ہوتا ہے۔اس میں برا منانے کی ضرورت بھی نہیں کہ تاریخ ِ شعر میں ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور ایسے ہی ہوتا رہے گا۔یہ وقت کا چھان بورا ہوتا ہے اس پر اکتفا کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو تصور ِ شعر کی حرکیات کا ادراک کرنے کی صلاحیت سے متصف نہیں ہوتے اپنا وقت مصرع سازی اور شعر کو ضرب المثل بنانے کی نادانستہ کوشش میں مصروف کار ہوتے ہیں۔
سٹیریو ٹائپ کا معنی ایک پلیٹ سے کئی پرنٹ نکالنا ہی ہے مگر اس سے متعلقہ ایک اور لفظ سٹیریو فونک ہے اس کا مطلب ٹیپ ریکارڈر ہے۔ شاعروں کی نئی نسل کے لیے شاید ٹیپ ریکارڈر کا معنی واضح نہ ہو یا اس کا امیج ان کے ذہن میں نہ آئے مگر وہ یہ ضرور سمجھ جائیں گے کہ ایک ہی گانا بار بار دہرایا جانا کیا معنی رکھتا ہے۔
شعری نظام ہی تصور شعر ہے جس کی تشکیل کے پیچھے ذات اجتماعی ذات( روایت، جدید نظریات سے تعلق مابعد نوآبادیات مسائل اور بہت کچھ) شاعر کے ممد ہوتے ہیں۔ان کی مدد سے ہی شعر کا شعری نظام ترتیب پاتا ہے
تصور ِ شعر کا ایک ٹول یا فن تراکیب سازی ہے۔یہ
ایک ایسا ٹول ہے جو شاعر کو بھٹکا سکتا ہے کہ ہماری روایت ترکیب سازی بھی سکھاتی ہے۔ترکیب سازی دو الفاظ کا مرکب ہے جو شعر میں ممد کم اور نقصان زیادہ پہنچا سکتا ہے۔
غرقاب سراب دار، بحر ِ بیکراں، بحر ِ ذخار اور بحر ِ دعا یا بحر ِ شب کو لیں
ان میں پہلی سب سے زیادہ نقصان دہ، لایعنی اور بے سروپا ہے۔ سراب کی بنیاد سرب ہے جو عربی الاصل ہے اور جس کا معنی خفیہ راستہ ہے جیسے قران مجید میں آیا ہے
فَاتّخَذ سَبِیلہٗ فِی البحرِ سَرَبا
زمین دوز راستہ جو پار نہ ہو،تہ خانہ۔جنگلی جانور کے بل یا بھٹ۔مشکیزے سے بہنے والے پانی کو اسی لیے اسراب کہتے ہیں۔اگر اس کا لغوی معنی یعنی دھوکا کو دھیان میں لائیں جو شاعر کا مقصود ہے وہ سولی کے دھوکے میں ڈوبا ہوا ہی ہے۔ جب شاعر بحر ِ بیکراں کو شعر میں استعمال کرے گا تو اس کے سامنے ایک لمبے چوڑے طوفان پرور سمندر کی تصویر ہو گی۔اسی طرح بحر ِذخار کی مثال ہے مگر ادبی روایت کے تتبع میں جب شعر میں بحر ِدعا اور بحر ِہجر استعمال ہو گا تو یقیناً شاعر کے ذہن میں کہیں اس کا تصور پیدا ہی نہیں ہو گا کہ دعا کے سمندر یا جدائی کے سمندر کا وجود ہی کہیں نہیں ہے۔اس کا مطلب کہ مصرع سازی میں الا بلا شامل کرنا ہے۔
موجودہ دور میں تصور ِشعر کی ایک عمدہ مثال ظفر اقبال کی پہلی دو کتابوں آب ِ رواں اور گلافتاب کا تصور ِ شعر اس قدر روایت شکن تھا کہ راشد اور فیض جیسے نظم نگار اور غزل گو اس کو پوری طرح گرفت میں لینے سے ناکام رہے۔راشد ان دو کتب کی اشاعت کے بعد تیرہ سال اور فیض بیس بائیس سال زندہ رہے۔
ان دونوں نے اس تصور ِ شعر کی نہ صرف تحسین نہیں کی بلکہ اس کے حق یا استرداد میں ایک لفظ نہ کہا۔اس لیے کہ یہ تصور ِ شعر ان کے غزلیہ اسلوب اور تصور پر ایک کاری ضرب تھی۔