نظم

اپنی موت مجھے دے دو : سعید اشعر

ایک تابوت اور بڑھ گیا
بھوری مٹی کے نیچے
سب کہتے پیں اس میں تیرا چہرہ اور تیری آنکھیں ہیں
تیری خاموشی اور تیری باتیں پیں
لیکن مجھ کو کالج کے رستے سے
دوسری منزل پر تیرے کمرے سے
باورچی خانے سے
تیری آواز سنائی دیتی ہے
میرے ہر اک آنسو میں
تیری آنکھیں بہتی ہیں
تیرا چہرہ
میں اپنی بند آنکھوں سے بھی
اسانی سے دیکھ سکتا ہوں
میں اب بھی آیۃ الکرسی کا
تجھ پر دم کرتا ہوں
شاید اس تابوت کے اندر
میری مٹی ہے
لوگوں کو دھوکہ ہوا پے کہ اس میں تو ہے
وقت ہی ایسا ہے
کچھ بھی ہونا ممکن ہے
دھوکہ دینا اور دھوکہ کھانا
اب اک فن بنتا جا رہا ہے
میری خواہش تھی کہ میری تربت پر
وقفے وقفے سے تو آئے
میں اپنی تربت کی مٹی پر بیٹھا
تیرا رستہ دیکھ رہا ہوں
تجھ کو کب آنا ہے
فاتحہ پڑھنے

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. younus khayyal

    نومبر 10, 2021

    بہت عمدہ نظم۔
    وااااااااااااااااہ ۔

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی