نظم

​باپ بیٹے کا پیچیدہ مسئلہ : ڈاکٹرستیہ پال آنند

میں چاہتا ہوں کہ ایک دن
اپنےننھے بیٹے کے ننھے سائز کے بُوٹ پہنوں
اور اس کی آنکھوں سے خود کو دیکھوں

طوالتِ قد میں کتنا اونچا
دکھائی دیتا ہوں؟
اس کا احساس اس کو اچھا ہے یا برا ہے؟
درست کیا ہے
کہ اس کی ناراضگی سے ڈرتا ہوں میں ہمیشہ؟
کہ اس کے رونے سے خوف کھاتا ہوں میں سدا ہی؟
کہ کیا اسے یہ پتہ ہے ۔۔۔ اس کی
تمام ننھی شرارتوں کو قبول کرنے
کا معترف ہوں؟

درست کیا ہے؟
کہ اس کا انگلی پکڑ کے چلنا
فقط اسی کے لیے تحفظ کا ایک احساس ہے ۔۔۔
کہ میں اس کے ساتھ ہوں ۔۔۔یا
اسےیقیں ہے کہ اس کے برعکس
ایسے کرنا مری تسلی کے واسطے ہے۔
درست کتنا ہے
اس کا میرے لیے رویہ
جو اس کا ماں کے لیے رویے سے مختلف ہے؟
کہ نسبتاً ماں کی نرم خفگی
جو گھُلتی جاتی ہےآنسووں میں
اسے زیادہ پسند آتی ہے
آمرانہ سلوک سے جو کہ مجھ سے ملتا ہے
ایسے شاید وہ سوچتا ہو

یہ باپ بیٹے کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے
جسے سمجھنے کے واسطے اپنے چار سالہ
شریر بچے کے ننھے بوٹوں میں پاوں رکھ کر
مجھے ذرا دیر اس کی آنکھوں سے
باپ کو دیکھنا پڑے گا۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی