ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بوتالیہ ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں اور بین المذاہب ہم آہنگی پر مبنی تنظیموں میں فعال رُکن کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔اس وقت بھی وہ امریکا کے ”مذہب برائے امن“(Religion for peace)کے ادارے میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ وہ بین المذاہب تعلقات کے لیے ”سکھ کونسل“ کے بانی ٹرسٹی بھی ہیں۔مقامی طور پر انھوں نے ”انٹر فیتھ ایسو سی ایشن فار سینٹرل اوہائیو“ کے ساتھ بیس برس تک کام کیا۔ مذکورہ بالا خدمات کے صلے میں انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ ان کی چڑھدے اور لہندے پنجاب سے دلی اورگہری ابستگی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وہ امریکا میں رہ کر پنجاب کے بارے میں مسلسل تفکر و تدبر کرتے رہتے ہیں۔ان کی کتاب My journey Home:going back to Lehnda Punjab”جو حال ہی میں اشاعت پذیر ہوئی ہے،در حقیقت ان کا لہندے پنجاب کا سفر ہے جہاں وہ اپنے آباو ئ اجداد کے علاقوں کو دیکھنے اور دریافت کرنے کی پُر مسرت اور جذبات سے لبریز کہانی بیان کرتے ہیں۔اس کتاب کو پنجابی زبان میں ڈاکٹر مظہر عباس اورپروفیسر خصر جوادنے ”میرا گھر دا سفر،لہندے پنجاب واپسی“کے عنوان سے ترجمہ کر کے”بابا فرید بُک فاؤنڈیشن“،لاہور سے شایع کیا ہے۔ڈاکٹر مظہر عباس محنتی اور علم دوست شخصیت ہیں جنھوں نے شنگھائی یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان سے گزشتہ دس برس سے تدریسی اور تحقیقی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔پروفیسر خضرجواد کا تعلق ایف سی کالج یونیورسٹی،لاہور سے ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے وہ پنجاب کی تاریخ کے فارسی ماخذات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے دیوان امرناتھ کی فارسی کتاب ”ظفر نامہ رنجیت سنگھ“کو اردو کا روپ دیا ہے۔وہ ”مہاراجا رنجیت سنگھ پنجابی فارسی ریسرچ سینٹر، لاہور“ سے منسلک ہیں۔ڈاکٹر مظہر عباس اور پروفیسر خضر جواد نے محنت اور جانفشانی سے مذکورہ کتاب کو پنجابی زبان میں ڈھالاہے۔
ڈاکٹر ترنجیت سنگھ بوتالیہ کی جنم بھومی مشرقی پنجاب ہے جہاں وہ اُس سمے پیدا ہوئے جب بھارت اور پاکستان 1965کی جنگ لڑ رہے تھے۔ابھی ہندوستان کو تقسیم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔بچپن میں وہ اپنی دادی سے تقسیم کی کہانی غور سے سنا کرتا تھا۔ اس کی دادی اسے بتایا کرتی تھی کہ لہندے پنجاب کے شہر گجرانوالہ کو چھوڑ کر وہ کیوں چڑھدے پنجاب کے وسنیک ہوئے۔وہ یہ بھی بتاتی کہ ان کا گھرانہ گجرانوالہ کے سب سے بڑے زمینداروں میں سے ایک تھاجو بیالیس جاگیروں کا مالک تھا۔ اسی وجہ سے ان کے خاندان کو ”بوتالیہ“ کہا جاتا ہے۔سن اسی کی دہائی میں ڈیرہ بابا نانک کی طرف شکار کھیلنے کے واقعات، پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات،دادا جی کے بھائی مہشندر سنگھ بوتالیہ کا 1970 میں پاکستان آنا اور اپنے خاندان کے بارے میں مصنف کو تفصیلی معلومات سے آگاہ کرنا،لاہور کے مختلف علاقوں کا حال،گردوارہ ڈیرہ صاحب،لاہور ریلوے سٹیشن،لاہور کا عجائب گھر،ایچی سن کالج،سکھ دور کی شاندار حویلیاں اورانار کلی وغیرہ کا بیان، اس کتاب میں دلچسپ اور من کو موہ لینے والے انداز میں بیان ہوا ہے۔پنجاب کے دیہاتی علاقوں کے بیان میں وہ اور زیادہ جذباتی اور حساس دکھائی دیتے ہیں۔ان کے انوکھے، اچھوتے اور اوپرے انداز نے جس میں ایک طرح کی فطری جذباتیت آمیز ہوگئی ہے،کتاب کو پُر کشش اور دلپذیر بنا دیا ہے مثلاً:
”میں اپنے کمرے وچ واپس آؤن توں بعد بسترے وچ لماں پے گیاتے مینوں پتا وی نہ چلیا کہ میں کدوں ڈونگھی نیندر دی قید وچ چلا گیا۔بسترے توں تازہ گلاب دے پھلاں دی خشبو تے سویر لئی باداماں دیاں بھجیاں ہویاں تے چھلیاں ہویاں پنج گریاں دے جوش نے مینوں اپنی نکی عمر دے لاپرواہی دے اوہ دیہاڑے یادکروا دتے،جدوں میری اماں ہررات میرے لئی پنج بادام بھیو ندی سی۔ مینوں بلکل ایویں لگیاں جیوں پئی میں اپنے گھر وچ آں۔“
ترنجیت سنگھ بوتالیہ نے لہندے پنجاب کے کئی شہروں کا سفر کر کے اپنے خاندان کے ماضی کو کھوجنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں نہ صرف ان کے خاندان کی تاریخ سامنے آئی ہے بلکہ پنجاب کی تاریخ کے کئی نئے پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔مصنف پاکستان میں دوہفتے کے قیام کے دوران میں جن تجربات سے گزرا،ان تجربات نے اس کی نفسیاتی کیفیات پر جو اثرات مرتسم کیے اور اُس نے ان کو بروئے کار لاتے ہوئے،اپنے ذہن کی برقی قوت سے جس طرح تحریر میں برتا،اس عمل نے متن میں شان و شکوہ اور رفعت پیدا کی ہے جس سے واضح پتا چلتا ہے کہ اُسے دِکھانے اوربتانے کا ہنر آتا ہے۔اس طرح کے متن کو ایک زبان سے دوسری زبان میں ڈھالنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہوتاہے۔غور کریں تو ترجمہ لسانی، فکری اور تہذیبی عمل ہے جس میں ذرا سی کوتاہی اور غفلت متن کے مفہوم کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔اس میں لفظوں کے مفہوم کو ایک زبان سے دوسری زبان میں نہیں ڈھالا جاتابلکہ پوری ایک تہذیب کو دوسری تہذیب میں منتقل کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر مظہر عباس اور پروفیسر خضر جواد نے ترجمہ کرتے ہوئے ان امور کا بطورِ خاص خیال رکھا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ ترجمہ کبھی بھی اصل متن کا مترادف نہیں بن سکتا۔نہایت کامیاب ہونے کے باوجود ترجمہ،ترجمہ ہی رہتا ہے اور مفہوم کی سو فی صد منتقلی ممکن نہیں ہوتی۔مذکورہ کتاب کے مترجمین نے مقدور بھر کوشش کی ہے کہ پنجابی ترجمہ اصل متن کے مفہوم کے قریب ترین ہو اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔ پنجابی ترجمے میں کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں ترجمہ نگاروں کے ترجمے میں تخلیقیت کا عنصر نمایاں ہوا ہے۔ترجمے کے اس عمل میں مصنف اور مترجم دونوں کے تخلیقی جوہر یکجا ہو ئے ہیں اور انھوں نے اسے دلچسپ بنا دیا ہے۔اس موقع پر یہ کہا جائے کہ ایک اچھی کتاب کا اچھا ترجمہ مترجمین کی جان کاوی،عرق ریزی اور جانفشانی کا نتیجہ ہے،تو غلط نہ ہوگا۔مذکورہ ترجمہ پنجابی کے قارئین کے لیے آسان اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ پُر مسرت اور بہجت انگیز بھی ہے کیوں کہ مترجمین نے گوڑھی،ٹھیٹھ اور قدیم پنجابی سے شعوری گریز کیا ہے۔ترجمہ میں پنجابی کے معاصر الفاظ کو برتا گیا ہے کہ متن کی قرأت میں بوجھل پن کا احساس نہ ہو اور قاری روانی سے پڑھتا چلا جائے جو کامیاب ترجمے کی نشانی خیال کی جاسکتی ہے۔