ایک انہونی کا ڈر ہے اور میں
دشت کا اندھا سفر ہے اور میں
حسرتِ تعمیر پوری یوں ہوئی
حسرتوں کا اک نگر ہے اور میں
بام و در کو نور سے نہلا گیا
ایک اڑتی سی خبر ہے اور میں
مشغلہ ٹھہرا ہے چہرے دیکھنا
اس کے گھر کی رہگزر ہے اور میں
جب سے آنگن میں اٹھی دیوار ہے
اس حویلی کا کھنڈر ہے اور میں
وقت کے پردے پہ اب تو روزوشب
اک تماشائے دگر ہے اور میں
جانے کیا انجام ہو ناصر مرا
ایک یارِ بےخبر ہے اور میں