‘سنا ہے اٹھاون سول لائنز والی کوٹھی بک گئی ہے‘۔ اس سوال کے جواب میں وہاں پر موجود ہر ایک نے اس بات کی تصدیق کی کہ واقعی وہ کوٹھی بک گئی ہے کہ عرصے سے یہ خالی پڑی تھی کسی کی اس میں رہائش بھی نہ تھی‘ مالک اس میں آ کر کبھی رہتا نہ ہی کوئی نوکر یہاں موجود ہوتا۔ اُن کے خاندان کا کوئی فرد بھی اب سرگودھا میں نہیں رہتا جو اس گھر کی نگرانی کے فرائض سر انجام دے سکتا۔ سامنے والی سڑک بہت اونچی ہو گئی ہے اور یہ جگہ بہت نیچی، اس کی عظمت کی داستان اب کتابوں میں ہی ملے گی۔ یہ کوٹھی بک گئی ہے مگر کس نے خریدی ہے؟ اس سے کسی کو دلچسپی ہی نہیں تھی۔ تھوڑی دیر ماحول خاصا گمبھیر رہا‘ پھر آہستہ آہستہ گفتگو کا رخ اس مکان سے اس کے مکین وزیر آغا کی طرف مڑ گیا تو سب کے چہرے کھل اٹھے۔ ہم جب بھی سرگودھا آتے‘ یہیں ہمارا ٹھکانہ ہوتا تھا اور یہی ہماری منزلِ مقصود۔
ہمارے علاقے سے سڑک کے ذریعے پہنچنا تو کارِ دارد تھا البتہ دھماکا ایکسپریس اپنی برق رفتاری کی وجہ سے ڈیڑھ گھنٹے میں سرگودھا پہنچا دیتی تھی۔ یہ ایک ٹرین تھی اور اس کا نام ”دھماکا‘‘عوام نے رکھا تھا کہ اس کی رفتار ہی ایسے تھی‘ ورنہ وہاں پسنجر ٹرینیں چلتی تھیں‘ وہی فاصلہ جو پسنجر ٹرینیں چار گھنٹوں میں طے کرتی تھیں‘ یہ دھماکا ایکسپریس فقط ڈیڑھ گھنٹے میں طے کر لیتی تھی۔ اس کی رفتار کو یاد کر کے ہم پہلے ہی دھیمے سروں میں گاتے ”اک اڑن کھٹولا آئے گا اور لال پری کو لائے گا‘‘ مگر لال پری بھی اسی دھماکا ایکسپریس کو سمجھتے اور اس میں سوار ہو جاتے۔ اب وہاں رش کہیے یا رونق، شور و غوغا کہیے یا مسافروں کی آپس میں گفتگو‘ یہ بول کسی کو سنائی نہ دیتے اور دوسرا یہ کہ یہ ایک شٹل سروس تھی‘ جو مسلسل لالہ موسیٰ سے منڈی بہائوالدین، ملکوال، بھلوال اور آس پاس کے دیہی علاقوں کے لوگوں کو ہمہ وقت دستیاب تھی۔ اِدھر یہ دھماکا ٹرین سرگودھا پہنچتی‘ ادھر مسافروں کو لے کر اس کا واپسی کا سفر شروع ہو جاتا۔ دُھول اڑاتی، چھوٹے سٹیشنوں کو دُھول میں چھپاتی رواں دواں ٹرین۔اب لگتا ہے وہ ٹرینیں ناپید ہو گئی ہیں یا کہیں ریلوے کے کسی کباڑ خانوں سے کوڑیوں کے بھائو بک گئی ہوں گی۔ اگر کہیں موجود ہوتیں تو نظر بھی آ جاتیں۔ ہم اسی دھماکا ٹرین سے سرگودھا اترتے تو دو قدم پر وہ علم ودانش کا مرکز تھا جو کسی لحاظ سے بھی یونیورسٹی سے کم نہ تھا اور وہاں بیٹھنے والے بھی اپنی مثال آپ تھے۔ یہ صدر نشین ڈاکٹر وزیر آغا ہیں، یہ دھان پان سے انگلش لٹریچر کے اسرار و رموز، اس کی تاریخ اور اثرات جاننے والے غلام جیلانی اصغر ہیں‘ یہ گورنمنٹ کالج (اب یونیورسٹی) کے پرنسپل بھی ہیں، یہ ڈاکٹر انور سدید ہیں‘ عہد ساز ادبی مجلّہ ”اوراق‘‘ کے بازوئے شمشیر زن، یہ سجاد نقوی ہیں جو اردو کے پروفیسر ہیں، یہ ماہرِ تعلیم صاحبزادہ عبدالرسول ہیں‘ جن کی لکھی ہوئی تاریخِ اسلام ہمارے گریجویشن کے کورس میں سب سے اعلیٰ کتاب سمجھی جاتی تھی، یہ ایم ڈی شاد ہیں‘ وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں مگر وکلا کی نکتہ آفرینیوں سے ہزاروں میل دور‘ بس انہی شخصیات سے میرا سرگودھا عبارت تھا۔
سرگودھا آنے کا مقصد صرف اس مرکز سے جڑا تھا‘ کسی لالچ، دنیاوی حب سے دور کہیں دور‘ جہاں صرف ادب کی گفتگو اور اس مرکز کے مکین سے شرف ِ ملاقات ہی اول اور آخری خواہش ہوتی تھی۔ یوں تو میرے بڑے بھائی بھی وہیں رہتے تھے اور رہتے ہیں‘ ان سے بھی لازماً ملنا ہوتا مگر منہ طرف سول لائنز‘ نزد شمع سینما ہی ہوتا تھا۔ ایک متروک ریلوے ٹریک بھی تھا‘ جو اس گھر کے پچھواڑے تک آتا تھا۔ جب ڈاکٹر وزیر آغا کے بزرگ اور بعد میں وہ خود سٹڈ فارمنگ سے وابستہ تھے تو یہیں سے گھوڑوں کو ریلوے کی مال بردار گاڑیوں پر سوار کر کے ان کی منزلِ مقصود کی جانب روانہ کر دیا جاتا تھا۔
یہ سول لائنز پر گھر‘ جو کوٹھی وزیر آغا کے نام سے معروف تھا‘ اب نہیں رہا۔ سنا ہے کہ یہ کوٹھی بک گئی ہے، اب یہاں کوئی مال بنے گا، کوئی پنج ستارہ ہوٹل بنے گا یا پلازہ‘ معلوم نہیں؛ البتہ یہ کنفرم ہے کہ یہ کوٹھی بک گئی ہے۔ انہی لوگوں اور اسی کوٹھی کی بنیاد پر میرا سرگودھا سے تعلق تھا۔ یہ عمارت پچاس کی دہائی کے قریب بنی‘ وزیر آغا نے خود راقم کو بتایا کہ اس زمانے میں سرگودھا میں دو بڑے گھر ہوتے تھے‘ ایک ننگیانہ ہائوس اور ایک اٹھاون سول لائنز۔ مگر ننگیانہ ہائوس سے ایک شکوہ اور شوکت کا اظہار ہوتا تھا۔ میں نے گھر اس نقطۂ نظر سے بنایا ہی نہیں تھا‘ یہ ایک خوبصورت گھر تھا مگر اس سے کسی قسم کی نمود و نماش کے بجائے ایک کشادہ پن اور روشنی کا اظہار مقصود تھا۔
میری ان سے ملاقاتیں اور محبتیں یکطرفہ نہیں تھیں کہ یکطرفہ محبت تھوڑی دیر ہی چلتی ہے۔کئی عشرے قبل راولپنڈی جاتے ہوئے رستے میں ایک چھوٹے سے قصبے میں ہمارا دفتر پڑتا تھا‘ چاشت کا وقت تھا کہ ایک سفید کار عین ہمارے دفتر کے سامنے رکی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ہم نے دیکھا کہ ڈرائیور نے سیٹ بیلٹ باندھی ہوئی ہے‘ وہ ابھی بیلٹ کھولنے ہی لگا تھا کہ اگلی نشست سے وزیر آغا اترتے ہوئے دکھائی دیے؛ اسی دھیمی چال میں ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اور مخصوص کیپ کے ساتھ۔کافی دیر میرے عام سے قصباتی دفتر میں بیٹھے رہے پھر آگے راولپنڈی کی جانب عازمِ سفر ہو گئے۔
اس گھر کا ذکر دو کرداروں کے بغیر ادھورا ہے‘ یہ دو کردار اس گھر سے لازم و ملزوم تھے؛ ایک باہو ڈرائیور اور دوسرا ذاتی خادم خلیفہ۔پہلے باہو رخصت ہوا پھر سول لائنز کا مکین اور اب معلوم ہوا کہ خلیفہ جو پچھلے اسّی سالوں سے اس جگہ اور اس جگہ کے مکینوں سے وابستہ تھا‘ راہیٔ ملکِ عدم ہو گیا ہے۔ خلیفہ مذہباً ہندو تھا‘ تقسیم ِ ہندوستان کے وقت اس کا سارا خاندان وزیر کوٹ میں اِن کے ہاں کام کرتا تھا‘ جب وہ خاندان بھارت جانے لگا تو خلیفہ نہ صرف یہاں رک گیا بلکہ اس نے اسلام بھی قبول کر لیا اور پھر وفاداری بشرط ِ استواری پر عمل بھی کر کے دکھایا۔ صبح ہو یا شام‘ رات کا کوئی پہر ہو یا دن کی کوئی گھڑی‘ ہمہ وقت وزیر آغا کے ساتھ وہی ہوتا تھا۔ سول لائنز کے مکین کا سفرِ آخرت‘ جو لاہور سے شروع ہوا‘ اس میں بھی وہی سب سے زیادہ گھائل دکھائی دیتا تھا۔ خلیفہ کے انتقال کے ساتھ لازوال محبت کی کہانی بھی اختتام کو پہنچ گئی۔
ویسے تو سرگودھا میں بڑے بڑے ادبا آئے اور اس گھر میں قیام کیا‘ جن میں بھارت سے جوگندر پال اور ان کی بیگم، ساقی فاروقی، گوپی چند نارنگ اور احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے لوگ بھی تھے۔ وہ نسل معدوم ہوئی تو ان کا جھنڈا چند دن ان کے صاحبزادے نے اٹھایا مگر وہ بھی عین جوانی کے عالم میں دار ِ عدم کو سدھار گئے۔ اپنی زندگی میں سلیم آغا اس گھر میں آتے رہے اور ہفتہ وار اور بعض اوقات ماہانہ نشستوں کا انعقاد یہیں ہوتا رہا۔ اب وزیر آغا کے ادبی ورثے کو سنبھالنے میں ایک نئی نسل مگن ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اٹھاون سول لائنز سے براہ ِ راست اکتساب ِ فیض کیا اور اب سرگودھا کی ادبی ذمہ داریاں اور وزیر آغا شناسی بھی اسی نسل کے سپرد ہے۔ ان میں سب سے متحرّک ذوالفقار احسن ہیں ان کے علاوہ عابد خورشید، شاکر کنڈان، ڈاکٹر بابر جاوید، یوسف خالد اور نجمہ منصور بھی اس جذبے اور لگن سے ادب کی شمع سنبھالے ہوئے ہیں‘ ان سے فیض حاصل کرنے والے اب خود کئی کئی کتابوں کے مصنفین ہیں۔ ابھی چند دن قبل انہی دوستوں نے ایک خوبصورت محفل کا انعقاد کیا جس میں انہوں نے اس گھر اور وزیر آغا سے اپنے ذاتی تعلق کو بیان کیا۔ ہر چند یہ اُس شام ِ دوستاں آباد جیسی نہیں تھی جو وزیر آغا کی زندگی میں آباد ہوتی تھی مگر پرانی یادوں کے حوالے سے یہ ایک بھرپور نشست تھی جس میں نجمہ منصور کی ”بارہ ماسی پیڑ جیسے‘‘کا نظمیہ خراجِ تحسین شامل تھا کہ جس کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا تھا ‘وہ اپنے حِلم اور علم‘ ہر دو اعتبار سے اپنے ہم عصروں پر بھاری تھا۔ یہ خاندانی نجابت، یہ شرافت کے اصول، یہ وضع داریاں، اور یہ رشتوں کا تقدس نسل بہ نسل چلتا ہوا اب نجمہ تک آ گیا ہے۔ اب میرا سرگودھا سے سارا تعلق، ساری ساجھے داری مقام ِ حیات کے اُس گھر تک محدود ہو گئی ہے جہاں چھوٹی آپا نجمہ منصور رہتی ہیں۔