ماں جی !آج آپ کو میری فانی زندگی سے اپنی دائمی حیات کی جانب روانہ ہوئے چھے برس بیت گئے۔ مَیں جانتا ہوں کہ ان چھے برسوں میں دو ہزار ایک سو بانوے دن، باون ہزار چھے سو آٹھ گھنٹے ، اکتیس لاکھ چھپن ہزار چار سو اسّی منٹ ہوتے ہیںلیکن مَیں آپ کو کیسے یقین دلاؤں کہ ان چھے برسوں کا ایک ایک لمحہ مجھے اپنی زندگی کا وہ مشکل ترین سوال نامہ نئے سرے سے ترتیب دیتے گزرا ، جو مَیں آپ کی زندگی میں بھی بہت عرصہ جیب میں ڈالے پھرتا رہا ، اور جسے فردا پہ ٹالتے ٹالتے دوش کے گہرے گڑھے میں جا گراکہ آپ ایک دن اچانک اڑتالیس برس کی بیوگی جیب میں ڈال کر چلتی بنیں۔
ایسا نہیں ہے کہ مجھے سوال نامہ بنانا نہیں آتا۔ مَیں آج آپ کی دعاؤں سے اس مقام پہ ہوں کہ مجھے بڑے بڑے امتحانات اور انٹرویوز کے لیے سوال نامے ترتیب دینا پڑتے ہیں، جن کے لیے ہر طرح کے سوالات میرے سامنے ہاتھ باندھے ہو تے ہیں ،لیکن یہ سوالات اتنے ضدی اور خود سر ہیں کہ مَیں ان کو ہر رات ایک دوسرے کے پیچھے قطار اندر قطارکھڑا کرکے سوتا ہوں لیکن صبح تک یہ سارے کے سارے کاغذ اور حافظے کا سینہ پھاڑ کے فرنٹ لائن پہ آن کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ کبھی آ کے ان بد تمیزوں کی شکلیں اور حلیے دیکھیں ، کسی عیار کرائم رپورٹر کی طرح ایک ایک کے تن بدن پہ کئی کئی آنکھیں اُگی ہوئی ہیں ، جو مجھے دیکھ کے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ بعض سوال تو اب پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی کہ رستے میں موت حائل ہو چکی ہے۔ موت خود ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب زندگی کے نصاب میں شامل ہی نہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ میرا آپ کا پچاس برس تک ساتھ رہا،لیکن دنیا یہ نہیں جانتی کہ ان پچاس سالوں کا ایک اک لمحہ آج بھی میرے دل پر شام کے اخبار کی چیختی ہوئی شہ سُرخیوں کی مانند نقش ہے۔ان پچاس سالوں میں ہمارے درمیان عجیب و غریب محبت کا ناقابلِ تشریح رشتہ رہا۔ آپ کی محبت، محنت، مشقت، خلوص اور مامتا سے لبالب تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے حوالے سے کوئی باقاعدہ تحریر لکھنے میں بہت تاخیر ہو گئی ۔ ہر سال آپ کی برسی کو فیس بُک کی ایک پوسٹ کے ساتھ بھگتاتا رہا۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مَیں کس بِرتے، کس جگرے کے ساتھ آپ سے دریافت کروں کہ اٹھارہ سال کی عمر میں شادی کے بعد جب آپ کے پہلے چاروں بچے ایک ایک دو دو سال کی عمر میں داغِ مفارقت دے گئے تو آپ کس پتھر کے نوالے چبا کے زندہ رہیں؟اور پھر محض تینتیس سال کی عمر میں چونتیس سالہ محبت کرنے والا شوہر بھی مزید چار ایسے بچے کہ جن میں سب سے چھوٹی کی عمر چار ماہ تھی، چھوڑ کر چلا گیا تو آپ نے زندگی کو کس فن کاری، ہوشیاری یا اداکاری کے ساتھ بہلا پھسلا کے ہم سے متعارف کرایا۔ لگتا ہے والد کو ہم نیچے والوں کی نسبت اوپر والے چاروں کی زیادہ فکر تھی اور آپ کو پہلے دن سے یتیم ہونے کا ایک ہی فائدہ یاد تھا کہ یہ ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔
اپنی تو اس لیے بچت ہو گئی کہ بچپن کی اَوکھی اور انوکھی یادوں کے سگنل بہت جلد کمزور پڑ گئے۔ مَیں حافظے کا لاکھ مِنت ترلہ کرتا ہوں، اس کے پاؤں کو ہاتھ لگاتا ہوں لیکن یہ میرے سامنے گونگا پہلوان بنا کھڑا رہتا ہے۔ جب کبھی مَیں قیافے سے بعد والے منظر کی تصویر بنانے کی کوشش کرنے لگتا ہوں تو ہر طرف آپ کی بیوگی ،بے چارگی، سراسیمگی بکھری دکھائی دیتی ہے۔ مَیں تصور کرنے سے قاصر ہوں کہ جس جاہل اور مرد غالب (Male Dominated) معاشرے میں عورت اور بیوی ہونا ہی معنی رکھتا ہو، وہاں آپ کو اسی تنخواہ میں بیوہ کا اضافی چارج بھی تھما دیا گیا ۔ جن حالات میں اکیلے مرد کے لیے بھی باپ کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا مشکل دکھائی دیتا ہو، مَیں سمجھ سکتا ہوں کہ وہاں ایک نڈھال و بے حال عورت کے چومُکھی لڑنے پر کیا تماشا لگا ہوگا؟
ماں جی ! مَیں نے آج حواس و احساس کی جملہ قوتیں مجتمع کر کے ، اور آپ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ چند سوالات آپ کی جانب اچھال تو دیے ہیں، اس لیے کہ مجھے معلوم ہے ، اب ایسے سوالات پوچھتے ہوئے مجھے فوری طور پر کسی کے سامنے شرمندہ یا رنجیدہ نہیں ہونا پڑے گا۔ ابھی میرا آپ سے جلدی ملنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ میرا اس فانی دنیا میں پوری طرح دل لگا ہوا ہے۔ علّامہ اقبال کہ جسے آپ ہمیشہ ’’لاما قبال‘‘ کہا کرتی تھیں اور جو شاید آپ کے دائیں بائیں ہی کہیں موجود ہوں، نے تو منھ بھر کے اللہ جی کہہ دیا تھا:
ع کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر
ابھی تو آپ کی سب سے چھوٹی پوتی، جسے حکم چلانے کی بنا پر مَیں اپنی چھوٹی ماں کہا کرتا ہوں، نے مجھے تڑی لگا رکھی ہے کہ خبردار! اگر میرے نانی یا دادی بننے سے قبل موت کے بارے میں سوچا بھی!! سچ پوچھیں اب تو میرے لیے تسلی کا صرف ایک ہی موہوم سا پہلو بچتا ہے کہ آپ ایک طویل ہجر کاٹ کے بہ یک وقت اپنے حقیقی اور مجازی خداؤں کے پاس جا پہنچی ہیں۔ پھر آپ کے وہ بچپن میں دنیاوی سکول سے بھاگ جانے والے چار شریر بچے (ذوالفقار، اکرم، اعجاز، کلثوم) بھی تو وہیں موجود ہیں۔ مَیں سوچتا ہوں آپ کو تو کوئی فرق نہیں پڑا ، آپ چار کو چھوڑ کے چار ہی کے پاس جا پہنچیں بلکہ اب تو کچھ دنوں سے پانچواں بھی آن پہنچا ہے۔ پھر میاں بونس میں مل گیا… رہا تو ہمارا کچھ نہیں!! آپ کے میاں تو اِترا اِترا کے آس پڑوس کے بہشتیوں کو بتاتے اور جلاتے ہوں گے کہ:
ع ایک بیوی ہے پانچ بچے ہیں!!
اب تو مجھے ایک ہی بات کا تجسس ہے کہ وہ بڑے میاں، یعنی آپ کے میاں، جن کی گائیکی اور زندہ دلی کے آپ بہت گُن گایا کرتی تھیں، وہ وہاں بھی دودھ اور شہد کی کسی نہر کے کنارے بیٹھ کے آپ کو وارث شاہ کی ہیر، مولوی عبدالستار کی ’یوسف زلیخا‘ یا میاں محمد بخش کا کلام اپنی شیریں اور مترنم آواز میں سناتے ہیں یا جنت میں صرف پرندوں کو گانے کی اجازت ہے؟ آپ بتایا کرتی تھیں کہ ابّا جی کو نئے سے نیا اسلحہ، بوری بھینس اور چِٹّی گھوڑی رکھنے کا بہت شوق تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ دودھ کی نہروں اور لاء اینڈ آرڈر کی بہتر صورت کے پیشِ نظر اسلحے اور بوری بھینس کی تو وہاں گنجائش نہیں نکلتی ہوگی، لیکن کیا انھیں وہاں چِٹّی گھوڑی کی سہولت بھی حاصل ہے کہ نہیں؟
ماں جی! مجھے احساس ہے کہ مَیں آپ کی اُخروی خوشحال گھریلو میں مسلسل مُخِل ہو رہا ہوں ۔ بس مجھے آپ سے آخری بات صرف یہ کرنا تھی کہ کسی وقت اپنے میاں کو ساتھ لے کے اللہ میاں سے باتوں باتوں میں اتنا تو پوچھ لیجیے کہ اُس نے آپ لوگوں کو آٹھ بچے دیے ، چار کو شروع ہی میں اوپر بلا لیااور چار کو اسی فانی دنیا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا… کیا کبھی ان آٹھوں بچوں کو ایک ساتھ اپنے والدین کے ساتھ رہنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں؟؟؟؟
younus khayyal
اگست 28, 2020زندہ دلی کامظاہرہ کرنے کےلیے ’’ صاحبِ دل‘‘ ہونا ضروری ہوتاہے۔ دوستوں کاخیال ہے کہ ڈاکٹراشفاق احمد ورک اور زندہ دلی ایک ہی شخص کے دونام ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس زندہ دل نے ’’ ماں جی (اللہ پاک ان کے درجات بلند کرے۔ آمین ) ‘‘ کی خدمت میں اپنا سوالنامہ اس اندازسے رکھاکہ پڑھنے، سننے والوں کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ خیالنامہ ‘‘ کے قارئین کے لیے بطورِخاص: