شاعر: ڈاکٹرجوازجعفری
آخری بار
کوہ ندا کے اس پار
اس کے سنہرے وجود کی آیت
میرے دل کے قرطاس پہ
تسطیر ھوئی
میرے پاؤں کے نیچے وہ جادوئی سرزمین تھی
اور مٹھی میں ان گنت سوالات
میں کسی آواز کا پیچھا کرتا ھوا
یہاں تک آیا تھا
مجھے دیکھ کر سوگوار پیڑ کھلکھلائے
اور بے نطق پرندے
اجنبی زبان میں کلام کرنے لگے
میرے قدموں کی آہٹ پا کر
عمررسیدہ پہاڑ کی چوٹی کی طرف بہتا دریا
نشیب میں پلٹ آیا
اور صدرنگ مچھلیاں
آبی کناروں پہ چہل قدمی کرنے لگیں !
وہ سرخ پیرھن پہنے
ہیرے کے تخت کو
ٹھوکر پہ لیے بیٹھی تھی
اس کی حفاظت پہ مامور سرخ رنگ
میرے خون میں ھلچل مچانے لگا
اس کی آنکھ میں
اورنس میں گزری رات کا سرور باقی تھا
اس کے خوشبودار پہلو میں
وفادار غلام ایستادہ تھے
جن کے محبت سے لبریز دل
ان کی ہتھیلیوں پہ دھڑکتے تھے
اس کی سنہری ناف کا پیالہ
ختن سے آئی کستوری سے لبریز تھا
اور سینے پر
لالہ کے دو پھول کھلے تھے
روشنی
اس کے خدوخال تخلیق کرنے میں
مصروف تھی !میں نے اپنی تازہ نظم
صندل کی چھال پہ لکھ کر
اسے ہدیہ کی
اس کی سخن شناس آنکھیں
نظم کو بینائی میں گوندھنے لگیں
نظم کے آخری مصرے تک آتے آتے
اس کا دل
آنکھوں سے بہہ نکلا
اس نے رقص کرتے پیڑ کا
سب سے خوش گلو پرندہ توڑ کر
میری ہتھیلی کو دان کیا
اس کے پہلو میں ٹھاٹھیں مارتا جواہرات کا دریا
میرے دامن میں بہنے لگا !
میں نے اس کے نیلے دریا کو
اپنے چلو میں بھرا
اور مرجان کے فرش پہ تھوک دیا
لاینحل سوالوں کے صدرنگ پرندے
جوابات کے موتی چونچ میں دبائے
میری ہتھیلی پہ اترنے لگے
میں نے چہرے پہ
حرف گر کے خدوخال پہنے
اور
نظم اور تقدیر ایجاد کرنے گا !