کیا بُراٸی ہے اگر
اُس خفا کو آج
منا لیا جاۓ
اور پھر اس کے
جھوٹ پر اعتبار کر کے
پھر سے محبت کو رونق بخشیں
میرے خیال سے
خیال اچھا ہے
اُس کے ترکِ وفا تک
کچھ دن اور مسرور رہا جاۓ
وقت تو خود کو دہرانے سے
قاصر ہے میری جاں
تجدیدِ چاہت کے لیے آج شب
کیا ہی اچھا ہے اگر ہوں
چند وصل کی گھڑیاں پیدا
انھی گھڑیوں کی سوٸیوں کو
چند پل روک کر
دھڑکنوں کو دھڑکنے دیا جاۓ
مجھے خبر ہے کہ وہ بھی
میرے بارے سوچتا ہو گا
ایسے روٹھے ہیں
اک دوسرے کو منانے کی آس پہ
کہ کٸی برس بیت گٸے ہیں
خیر میری طرح وہ بھی اب
صلح کی وجہ ڈھونڈتا ہوگا
چلو اُس کی کھلی کھڑکی سے
بلاٸیں اس کو باہر صاحب
ہمیشہ کی طرح
پھینک کے پھول