غزل

غزل : سعید اشعر

نظر کے سامنے کچھ دائرے تھے
ہمارے لوگ ان میں ناچتے تھے

محبت کے سفر میں آسماں پر
ستارے مسکرانے لگ گئے تھے

جزیرہ ڈوبتا دیکھا سبھی نے
سمندر کے کنارے بھیگتے تھے

کمانیں سب کے ہاتھوں میں تنی تھیں
نشانے  پر  چمکتے  آئنے  تھے

نجانے کس لیے خاموش ہے تُو
تری باتوں میں کتنے ذائقے تھے

دیے رکھے ہوئے تھے پانیوں میں
اندھیروں میں گھرے سب طاقچے تھے

تری باتوں سے موسم سبز ہوتا
ترے جملے ہوا میں تیرتے تھے

تری جانب بھلا کیوں چل پڑے ہم
کئی رستے ہمارے سامنے تھے

مرے آگے کہانی میں بھی اشعرؔ
نئے کردار اونچا بولتے تھے

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں