ترے ہجر میں مرا حالِ دل ‘ کبھی کیا ہوا ، کبھی کیا ہوا
کبھی مضطرب، کبھی مضمحل،کبھی کیا ہوا ،کبھی کیا ہوا
کبھی آنکھ سے غم دل رواں ،کبھی سینہ درد سے تھا تپاں
رہا ہاتھ سینے سے متصل ، کبھی کیا ہوا ، کبھی کیا ہوا
کبھی درد میں بڑا جوش تھا،کبھی سکتہ تھا توخموش تھا
نہ تھا ایک حال پہ مستقل ، کبھی کیا ہوا ،کبھی کیا ہوا
کبھی یک نفس جو ملا سکوں ، ذرا ہوش آیا تو کیا کہوں
تری یاد آ کے ہوئی مخل ، کبھی کیا ہوا ، کبھی کیا ہوا
کبھی بن کےخوشبو بکھر گیا، نہ کہیں بھی نام و نشاں ملا
ہوا جا بجا جو وہ منتقل ، کبھی کیا ہوا ، کبھی کیا ہوا
کبھی جوش گریہ میں قادری ، کرے گرد صحرا کی ہمرہی
کبھی سرو ساں رہے پا بہ گل ، کبھی کیا ہوا ، کبھی کیا ہوا
گمنام
جولائی 14, 2020Very nice Gazal
شبیر احمد قادری ، فیصل آباد ۔
جولائی 14, 2020عمدہ اور شان دار غزل ،
ردیف بہت لطف دے رہی ہے ۔