کیا وقت لوٹ نہیں سکتا
کچھ زخم بھرنے ہیں
کہ جن کے رسنےسے
اب جینا وبال جاں ہے
تمہیں وہ خواب لوٹانے ہیں
کہ جو اب حشرتک ادھورے ہی رہیں گے
اور ویسے بھی اب یہ ادھورےخواب
میری آنکھوں پہ بوجھ ہیں
بھلا کوٸی بھی بوجھ
کب تک اُٹھایا جا سکتا ہے
سنو !!! تمہیں وہ نظمیں بھی سنانی ہیں
کہ جن میں میری محبت
تمہارے نام سے زندہ ہے
میں نہیں چاہتا
اب اُنھی نظموں کو کوئی
میرے دراز سے نکالے تو
خود سے منسوب کر بیٹھے
میں نظمیں لکھنے کا عادی ہو گیا ہوں
اور اب اور نہیں سنبھال سکتا
کہ میرے کمرے میں اب
بہت سے حسیں چہرے کھڑکیوں سے
جھانکیں تو مجھے ڈر لگتا ہے
کہیں تم نظموں سے اخذ ہوگئے تو
میں نہیں چاہتا
کوٸی تمہیں بے وفا کہہ دے
سنو ! تمہیں وہ سب دکھانا ہے
کہ جس دھن کی جستجو میں
تم نے مجھ سے منہ پھیرا تھا
کہ اب وہ سب تمہیں سونپ کر
مجھے اپنی محبت چاہیے