کیوں مجھ کو ڈھونڈتے ہیں الجھے ہوئے مناظر
حیرت زدہ سی شامیں ، سہمے ہوئے مناظر
بوندیں بلا رہی تھیں کھڑکی کو دے کے دستک
بارش کے بعد دیکھے نکھرے ہوئے مناظر
اتنی تھی تاب کس میں جلتے گھروں کو دیکھے
وہ آگ تھم گئی پر جھلسے ہوئے مناظر ؟
ایسی ہی رت میں تونے پیمان جھوٹے باندھے
ہائے وہ میرے دل سے اترے ہوئے مناظر
کچھ خول سپیوں کے ، ٹوٹے ہوئے گھروندے
ساحل کی ریت پر تھے بکھرے ہوئے مناظر
میلے کی ساری رونق میلے کے ساتھ اجڑی
اڑیل سے بچپنے کے روٹھے ہوئے مناظر
آنکھوں کے آئنوں میں محفوظ ہو گئے تھے
یادوں کی ریل سے کچھ کٹتے ہوئے مناظر