ستارے اپنے تیرہ آسماں کے
سدا پائے ہیں میں نے گردشوں میں
تلاطم روزِ اول سے رہا ہے
بحرِزیست کے کڑوے کسیلے پانیوں میں
سماجی الجھنوں میں
معاشی جھنجھٹوں میں
ہمیشہ دل رہا ان وحشتوں میں
تھی گو حالات کی ہر ضرب کاری
مگر اک وار تھا ان سب پہ بھاری
کسی کا قتل کرتا وہ تبسم
کسی کے نین وہ جیسے کٹاری