نہ اِس کنارے سے مطلب، نہ اُس کنارے سے
نظر بندھی ہے تِری روشنی کے دھارے سے
وہ جن کا راہ نُما ماہتابِ اسرا ہو
وہ راہ کِس لیے پوچھیں کِسی ستارے سے
جو اُنؐ کا سوچا، ورق پر بہار اُترنے لگی
ثنا کے پھول کِھلے کیسے پیارے پیارے سے
جو ان کے دھیان کی برکت نہ میری عُمر میں ہو
تو ایک پَل بھی نہ گزرے مِرا گزارے سے
نگاہِ مرکزِ رحمت کی ہے کشش حامدؔ
سنور رہے ہیں پریشان جو ہمارے سے
—–