بیسویں صدی کے وہ اربابِ فکرودانش جنھوں نے اپنے شانہ تخلیق سے گیسوۓ سخن کو سنوارنے اور سلجھانے کے ذیل میں قابلِ قدرحصہ لیا،نہ صرف شاعری بلکہ نثرنویسی میں بھی کمال حاصل کیا ان میں سے ایک اہم اور معتبر نام حافظ مظہرالدین مظہر کا بھی ہے،
حافظ مظہرالدین ١٩١٤ ٕمیں ستکوہا ضلع گورداسپور میں پیدا ہوۓ ،ان کا آباٸ علاقہ رمداس،تحصیل رجنالہ،ضلع امرتسر تھا،والد گرامی حضرت مولانا نواب الدین ستکوہی رمداسی سلسلہ چشتیہ کے جیّد بزرگ اور عالمِ دین تھے ۔ان کی کتاب” تحقیق الادیان فی اعجازالقرآن المعروف پیامِ حق” شایع ہوٸ،حافظ مظہرالدین نے ابتداٸ تعلیم اپنے والد محترم کے علاوہ امیر میناٸ کے شاگرد صوفی عبدالرزاق رام پوری سے حاصل کی۔عارفِ کامل خواجہ سراج الحق فاروقی گورداسپوری رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت کا شرف حاصل کیا،اپنے والد سے بھی خلافت پاٸ،شاعری میں سیماب اکبر آبادی کی شاگردی اختیار کی،
حافظ مظہرالدین کی ادبی شناخت بحیثیت ناعت کے بہت معتبر ہے ، حفیظ تایب مرحوم نے بتایا ہے کہ حافظ صاحب نے مصری ادیب جرجی زیدان کے ناول کا اردو ترجمہ "وادیِ نیل” کے نام سےکیا تھا۔حافظ صاحب پہلے روزنامہ ” تعمیر” اور بعدازاں روزنامہ” کوہستان” سے وابستہ رہے،ان کے کالم”نشانِ راہ” کے نام سے تین جلدوں میں شایع ہوۓ، حافظ صاحب ٢٢ میی ١٩٨١ ٕ کو انتقال کر گیے ۔ان کا مزار چھتر شریف مری روڈ پر مرجعِ خاص و عام ہے،
محترم ارسلان احمد ارسل کی مرتبہ ” کلیاتِ مظہر” میرے پیشِ نظر ہے۔ارسل ١٩ جنوری ١٩٨٨ ٕ کو لاہور میں پیدا ہوۓ،وہ ممتازو محترم شاعر پروفیسر محمد ریاض احمد شیخ کے بڑے صاحبزادے ہیں،اس سے پہلے وہ ” حضوروسُرور” کے نام سے ایک کتاب ترتیب دے چکے ہیں جس میں ممتاز نعت خواں سید منظورالکونین اقدس کی حیات و خدمات کے حوالے سے تحریریں شامل ہیں،وہ انٹرنیشنل نعت مرکز کے نگران ہیں اوراس مرکز کے تحت بہت سی کتب شایع کر چکے ہیں ،ان دنوں "ارسلان احمد ارسل آفیشل یو ٹیوب چینل” کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ ” کلیاتِ مظہر” کے مشمولات یہ ہیں :
* نورونار*۔
یہ دراصل حافظ صاحب کا پہلا مجموعہ کلام تھا جو ١٩٤٦۔٤٧ ٕ میں ترتیب دیا گیا مگر فسادات کے باعث شایع نہ ہو پایا، اس کا دیباچہ ١٦ اپریل ١٩٤٦ ٕ کو مرتضیٰ احمد میکش نے لکھا،یہ مجموعہ ٢٠٠٧ ٕ میں نذر صابری نے شایع کرایا،انھوں نے بتایا ہے:
” مجموعہ کلام لاہور میں آقاٸ میکش کے دفتر میں تھا،محفوظ رہ گیامگر انہوں نے اس کو نہ خود چھاپا اور نہ کسی کو چھاپنے دیا۔خود سے الگ بھی نہیں کیا۔یہ بات میرے لیے کس درجہ نشاط انگیز ہے کہ ساٹھ سال کے التوا کے بعد اس کی اشاعت کا اعزاز ایک دیرینہ غلام کو حاصل ہو رہا ہے”(ص١٨)٢٣ میی٢٠٠٧ ٕ۔
اِس مجموعے میں ١٩٣٠ ٕ اور اس کے بعد کا کلام شامل ہے۔ پیر غلام نصیرالدین نصیر اور عبدالعزیزخالد کا منظوم خراجِ عقیدت بھی جزوِ کتاب ہے۔
*شمشیروسناں*۔
یہ حافظ صاحب کا پہلا مجموعہ ہے جو ١٩٥٠ ٕ میں چھپا۔دیباجہ نگار حفیظ جالندھری کا کہنا ہے:
” یہ ایک چھوٹا سا مگر بہت ہی اہم مجموعہ ہے(اسلوب کے لحاظ سے نہیں۔شاعر کے احساسات کی وجہ سے)یہ کلام اپنی نوعیت میں خاص ہے”(ص٢٢١)،
اس مجموعے میں شامل اس کلام کو بہت شہرت ملی:
بہشت گوش تھے نغمات آبشاروں کے
نظر نواز تھے نظارے مرغزاروں کے
بھلاٶں کیسے مناظر ترین بہاروں کے
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑاٶں گا اک دن
مرے وطن !تری جنت میں ےآٶں کا اک دن (ص٢٥٩)،
* حرب و ضرب*۔
یہ مجموعہ ملی اور قومی نظموں پر مشتمل ہے،سالِ اشاعت ١٩٥٥ ہے،دیباچہ نویس نسیم حجازی کی راۓ میں:
” حافظ مظہرالدین کا کلام ایک آیینہ ہے جس میں آپ قوم کا ماضی اور حال دیکھ سکتے ہیں۔یہ ایک مشعل ہے جو آپ کو مستقبل کی منزل کا راستہ دکھاتی ہے”(ص٣٢٤)،
* تجلّیات*۔
یہ مجموعہ حافظ صاحب کی نعت کے میدان میں شناخت کا پہلا حوالہ بنا ،وطنِ پاک میں ادبی نعت نگاری کا ماحول پیدا کرنے کے ذیل میں ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں،انھوں نے بہت سے نیے لکھنے والوں کی فنی و فکری رہنماٸ کی ۔اس مجموعے دیباچہ نگار محمد ایوب ہیں۔اس مجموعے میں حافظ صاحب کی کیی مقبولِ عام نعتیں موجود ہیں :
* بنے ہیں دونوں جہاں شاہِ دوسرا کے لیے
سجی ہے محفلِ کونین مصطفیٰ کے لیے
حضور نور ہیں محمود ہیں محمد ہیں
جگہ جگہ نیے عنوان ہیں ثناء کے لیے
}ص٤٧٩}
* جب لیا نامِ نبی میں نے دعا سے پہلے
مری آواز وہاں پہنچی صبا سے پہلے
بے وضو عشق کے مذہب میں عبادت ہے حرام
خوب رو لیتا ہوں خواجہ کی ثناء سے پہلے
]ص٣٨٣۔٣٨٤]
*دو جہاں فدا ترے نام پر سکوں فزا ترا نام بھی
تری ذات پر ہو درود بھی تری ذات پر ہو سلام بھی
مجھے اپنی تابشیں کر عطا تو ہے میرا ماہِ تمام بھی
ہے لٹی لٹی مری صبح بھی ہے بجھی بجھی مری شام بھی
(ص٥١٨)،
*جلوہ گاہ*۔
یہ منظوم سفرِ حجاز ہےاور تیں اجزا پر مبنی ہے
١۔آرزوییں،
٢۔آغازِ سفر ،
٣۔حضوری،
٤۔واپسی،
آخر میں حدیثِ کربلا کے نام سے مناقب شامل ہیں ،دیباچے محمد ایوب اور احسان دانش نے لکھے ہیں،ثانی الذکر کی راۓ میں:
” حافظ مظہر الدین کے یہاں حضور کی زندگی کے ہرخ پہلو اور اپنے عجز کے بیشتر پہلوٶں پر خیالات و احساسات کی تصویریں ملتی ہیں،جن میں ادب بھی ہے اور احترام بھی،عشق بھی ہے اور سوزِ عشق بھی۔میں نے پاکستان میں بہت کم لوگ حافظ مظہرالدین صاحب جیسے رقیق القلب اور عاشقِ رسول دیکھے ہیں” (ص٦٧٦)،
* بابِ جبریل*۔
یہ حافظ صاحب کا نعتیہ مجموعہ ہے،دیباچہ نویس پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں:
” حافظ صاحب کی نگاہیں شہرِ حبیب ﷺ کے صبح وشام کے جلووں سے سرمگیں ہونے کے بعد روۓ حبیبﷺ کی دلبرانہ اداٶں میں کھو جاتی ہیں،دلِ مضطر کے جذبات زبانِ قلم سے ٹپک پڑتے ہیں”<ص٩٣١ >،
مجموعے میں مناقب بھی موجود ہیں،
پیر غلام نصیرالدین نصیر کی منظوم فارسی نظم بھی مجموعے کا حصہ ہے جس میں حافظ صاحب کی خدمات کو سراہا گیا ہے۔
*میزاب*۔
یہ مجموعہ حافظ صاحب کے انتقال کے بعد حفیظ تایب مرحوم نے ترتیب دیا،اس میں چوبیس نعتیں شامل ہیں،دیباچہ نگار حفیظ تایب کی راۓ میں:
” ان نعتوں میں نیازوگداز بھی ہے،طلب وشوق بھی،جذب و مستی بھی ہے،والہانہ عقیدت بھی،سیرتِ اطہر کے خدوخال بھی ،قومی و ملّی آشوب اور جدوجہد کے عکس بھی” (ص١١١٠)،
” میزاب” میں شامل یہ نعت بہت مقبول ہے:
ہم سوۓ حشر چلیں گے شہِ ابرار کے ساتھ
قافلہ ہو گا رواں قافلہ سالار کے ساتھ
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ
کون روتا ہے لپٹ کر درودیوار کے ساتھ
<ص١١٤٢۔١١٤٣>،
١١٦٨ صفحات کو محیط اِس شان دار کلّیات کی ترتیب و تہذیب کی صورت میں ارسلان احمد ارسل نے ایک عہداور ایک دبستانِ نعت کو سمیٹنے کی سعی جمیلہ کی ہے ۔اس پر نامورانِ علم و فضل نے انہیں خوب داد دی،ان میں ڈاکٹر خورشید رضوی،افتخار عارف،انوار احمد زٸ،ڈاکٹر عزیز احسن،ڈاکٹر محمد اجمل نیازی اور دیگر اہل ِقلم شامل ہیں ۔