یہ جو ننگ تھے ‘ یہ جو نام تھے ‘ مجھے کھا گئے
یہ خیال ِ پُختہ جو خام تھے ‘ مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے ‘ مجھے کھا گئے
مَیں عمِیق تھا کہ پَلا ہُوا تھا سکُوت میں
یہ جو لوگ محو ِ کلام تھے ‘ مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اِکائی تھی ‘ وہ نہ جُڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے ‘ مجھے کھا گئے
وہ نگِیں جو خاتم ِ زندگی سے پِھسَل گیا
تو وہی جو میرے غُلام تھے ‘ مجھے کھا گئے
مَیں وہ شعلہ تھا ‘ جسے دام سے تو ضَرَر نہ تھا
پَہ جو وَسوَسے تَہہ ِ دام تھے ‘ مجھے کھا گئے
جو کُھلی کُھلی تھیں عداوتیں ‘ مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خَند سلام تھے ‘ مجھے کھا گئے