کرونا کے بعد کی دنیا،اس سے پہلے کی دنیا سے بہت مختلف ہو چکی ہے۔اس میں اور کچھ نہیں بدلا بس رشتے بدل گئے ہیں،تعلقات کی نوعیت پہلے جیسی نہیں رہی۔ایک دوسرے سے لمحہ بھر کے لیے بھی دور نہ ہو سکنے والے ایک دوسرے کی صورت دیکھنے سے بے زار ہوگئے ہیں۔ ایک گلی محلے میں رہنے والے ایک دوسرے کو اکتا کر دیکھنے لگے ہیں۔دوستوں کی محفلیں اجڑ گئی ہیں۔رشتہ داروں کی ملاقاتیں ختم ہو گئی ہیں،دنیا کی رنگ رلیوں اور ہاو ہو کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ساری شیخی و شوخی کی عمارت ڈھڑام سے زمیں بوس ہوگئی ہے۔سڑکوں پر جہاں پہلے ہر طرف ٹریفک رواں دواں ہوا کرتی تھی،اکا دکا گاڑی دکھائی دیتی ہے،لوگ گھروں میں دبکے ہوئے بھی ہیں اور سہمے ہوئے بھی،جیسے گھروں سے باہر باد صرصر کا پہرا ہے۔لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ نظر نہ آنے والے اس دشمن کے وار سے کیوں کر محفوظ رہیں گے۔ ہر لمحہ ٹیلی ویژن پر آنے والی ہوش ربا خبروں نے اوسان خطا کئے ہوئے ہیں۔ خوف کے عالم میں ہر ایک نے ماسک چڑھایا ہوا ہے،دستانے پہنے ہوئے ہیں۔دوستوں سے گلے ملنا تو کجا،کسی سے ہاتھ ملانے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہے۔دنیا کے مختلف طبقوں کی بات کریں تو ہر ایک طبقہ اس سے متاثر ہوا ہے،ہر ایک نظام ساکت و جامد اور مضمحل ہو چکا ہے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ کرونا سے پہلے کا دور اور تھا جو اب لوٹ کر نہیں آئے گا۔لازمی بات ہے ماضی کبھی لوٹ کر نہیں آتا لیکن لوگوں کے لیے چند رہنما اصول ضرور وضع کر جاتا ہے۔ کرونا سے پہلے کا دور نفسا نفسی کا دور تھا،خود غرضی اور خود پسندی کا دور تھا۔لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں تھا۔ہر آدمی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں تھا۔لوگوں کی مخالفتیں عروج پر تھیں اور مقدمے بازیوں کا شور آسمان پر تھا۔اپوزیشن حکومت ڈھنا چاہتی تھی اور حکومت حزب مخالف کے حملوں سے محفوظ رہنا چاہتی تھی۔بڑی طاقتیں اور طاقتور ادارےکمزور اقوام پر سرمایہ دارانہ نظام کے ستم ڈھاتے ہوئے انہیں غلام اور اپنا پابند رکھنے کے عادی ہو چکے تھے۔لیکن اچانک سب کچھ بدل گیا۔ایک نئے دور نے جنم لے لیا۔اس نئے دور میں نئی اقدار پیدا ہو گئیں۔ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کی روایت بالکل ترک کر دی گئی ۔لوگ سلام بھی چھ فٹ کی دوری سے کرنے لگے۔ بعض معاشروں میں کہنیاں اور پاؤں ملانے کی نئی روایت پیدا ہوئی۔مساجد میں صرف اذان دی جانے لگی۔باجماعت نماز ترک ہو گئی۔ نمازیوں میں بھی چھ چھ فٹ کا فاصلہ رکھا جانے لگا۔مرنے والوں کے جنازے موقوف ہو نے لگے۔ہر ایک پہ یہی شک ہونے لگا کہ کرونا سے نہ مرا ہو۔شادیوں کےانتظار میں لوگ بوڑھےہونے لگے۔جن کی طے تھیں ۔ان کی بھی انتہائی سادگی سے ہونے لگیں۔ڈھول نہ باجے ،بس دو چار باراتی اورایک ڈش کے دعوت ولیمہ میں دو چار مہمان۔ناتہذیب یافتہ انسانوں کو تہذیب سکھا دی گئی۔سبزی کی دکان ہو یا گوشت کی۔ایزی لوڈ شاپ ہو یا بیکری ،بنک ہو کوئی ڈاکٹر سب خریداروں اور مریضوں کو قطار میں اور چھ چھ فٹ دور کھڑا کیا جانے لگا۔اب سکول کھلیں گے تو بچوں کو بھی چھ چھ فٹ کی دوری پر بٹھایا جائے گا اور ان کی تفریح اور کنٹین بھی بند ہو جائے گی۔اس سے ایک بڑا نقصان کھٹی میٹھی ٹافیاں اور کرکرے بنانے والوں کو بھی ہوگا مگر اس سے بڑا نقصان شیطان کا ہو گا جو مضر صحت ٹافیاں کھانے پر انہیں اکساتا تھا۔اب انہوں نے بھی باہر کی چیزوں کی طلب چھوڑ دی ہے۔سب کچھ گھر میں بن رہا ہے۔ہوٹل بند ہیں،پیزا ہٹ اور بریانی کی دکانیں بند ہیں۔یہ سب کچھ پہلے بھی گھر پر بن سکتا تھا مگر کیا کریں کہ پہلے کا دوراور تھا،آج کا دور اور ہے۔ ہر طرف کرونا کا زور ہے اور شور ہے۔
آج کی ایک اہم خبر یہ بھی ہے کہ لوگ میڈیا کی کرونا خیز مہم کے دوران ڈیپریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔ڈپریشن کا مرض پہلے بھی معاشرے میں بہت زیادہ تھا ۔مغربی معاشروں میں چونکہ خدا اور مذہب سے تعلق واجبی سا ہے،اس لیے وہاں ڈیپریشن کامرض بھی کچھ زیادہ ہی تھا،اور انہوں نے پرسکون رہنے کے لیے نئی نئی حیران کن ادویات ایجاد کر لی تھیں،جنھیں ہمارا بھی وہ سارا طبقہ بخوبی آزماتا اور استعمال کرتا ہے جس کا خدا اور دین اسلام سے تعلق واجبی سا ہے۔ان خبروں کے علاوہ ڈپریشن کا ایک اور سبب اپنی اختیار کردہ قید تنہائی بھی ہے۔یہ قید تنہائی ہماری ذہنی صحت کے لیے بھی مضر ہے اور جسمانی صحت کےلیے بھی۔اس قید تنہائی میں ہم کرونا سے تو بچ جائیں گے مگر بستر سے لگ کر مختلف عوارض کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔اس لیے ورزش کو بھی اپنا معمول بنالیں۔آخر میں ہماری ایک غزل کے چند اشعار۔
ہے شام چمن میں، آب وہوا کچھ کہتی ہے
پابند قفس،محبوس فضا کچھ کہتی ہے
بس قید رہو ! بس قید رہو! بس قیدرہو !
یہ کون ومکاں کی قیدِ بلا کچھ کہتی ہے
جو موت کےخوف سے،ویراں ہیں اورلرزاں بھی
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کیوں معنی خیز نسیمِ صبح کی باتیں ہیں
کیوں شام ڈھلے رک رک کے ہوا کچھ کہتی ہے
طوفان تھمے گا ، اچھی خبر مل جائے گی
امید مری ہر روز نیا کچھ کہتی ہے
جب رات تلاطم خیز سمندر ہو جائے
مہتاب کو ملاحوں کی دعا کچھ کہتی ہے
سن دشتِ کرم میں صبح حرم کی پہلی اذاں
اے ذہن رسا ! سن ! غار حرا کچھ کہتی ہے
زرپوش نگر کے باسی سن تخلیق ہے کیا؟
یہ اہل قلم کی خستہ قبا کچھ کہتی ہے
محسوس اسد یہ ہوتا ہے وہ آیا ہے
جب رات جلا کر اپنا دیا کچھ کہتی ہے