غزل

غزل : یوسف خالد

وہ صورتِ گلاب ہے ہر سو کھلا ہوا
حیرت یہ ہے کہ چشمِ تماشا کو کیا ہوا

اے ساعتِ گریز  یہ  کیا ہے معاملہ
کیوں دیکھتی نہیں ہو کہاں ہوں پڑا ہوا

بے چہرگی کی بھیڑ میں چہرہ تلاشتے
رنگوں سے، خوشبوؤں سے مرا رابطہ ہوا

بارِ دگر کہو جو ابھی زیرِ لب کہا
میں سن نہیں سکا ہوں تمہارا کہا ہوا

پوچھیں گے ہم پہ کیوں نہیں اس کی عنائتیں
گر زندگی سے اپنا کبھی سامنا ہوا

ہم لب شکستہ لوگ تہی دست رہ گئے
گزرا  قریب  سے  وہ  سحر  بانٹتا ہوا

مجھ پر یہ لطفِ خاص ہے میرے کریم کا
وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں اب تک لکھا ہوا

اس دورِ ابتلا میں ہوں اس سے مدد طلب
میں مطمئن ہوں اس کی طرف دیکھتا ہوا

کرتا ہوں زندگی سے مسلسل معانقہ
حرفِ ہنر ہے تارِ نفس سے ملا ہوا

اس کا خیالِ جاں فزا ہے بانسری کی لے
ہے ذکر اس کا چاندنی شب سے جڑا ہوا

دیتی ہے آکے دستکیں خوشبو بصد نیاز
دامن کا چاک یوں ہی نہیں ہے سلا ہوا

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں