وہ صورتِ گلاب ہے ہر سو کھلا ہوا
حیرت یہ ہے کہ چشمِ تماشا کو کیا ہوا
اے ساعتِ گریز یہ کیا ہے معاملہ
کیوں دیکھتی نہیں ہو کہاں ہوں پڑا ہوا
بے چہرگی کی بھیڑ میں چہرہ تلاشتے
رنگوں سے، خوشبوؤں سے مرا رابطہ ہوا
بارِ دگر کہو جو ابھی زیرِ لب کہا
میں سن نہیں سکا ہوں تمہارا کہا ہوا
پوچھیں گے ہم پہ کیوں نہیں اس کی عنائتیں
گر زندگی سے اپنا کبھی سامنا ہوا
ہم لب شکستہ لوگ تہی دست رہ گئے
گزرا قریب سے وہ سحر بانٹتا ہوا
مجھ پر یہ لطفِ خاص ہے میرے کریم کا
وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں اب تک لکھا ہوا
اس دورِ ابتلا میں ہوں اس سے مدد طلب
میں مطمئن ہوں اس کی طرف دیکھتا ہوا
کرتا ہوں زندگی سے مسلسل معانقہ
حرفِ ہنر ہے تارِ نفس سے ملا ہوا
اس کا خیالِ جاں فزا ہے بانسری کی لے
ہے ذکر اس کا چاندنی شب سے جڑا ہوا
دیتی ہے آکے دستکیں خوشبو بصد نیاز
دامن کا چاک یوں ہی نہیں ہے سلا ہوا