غزل

میں دیکھ اپنے آپ کو ہی لوٹتا رہا
پھر کامیابی کے نشے میں جھومتا رہا

ایسی بہار آئی ہے زخموں کے درمیاں
ہر درد سے تُو پھوٹا ہے پھر پھوٹتا رہا

اب کے خزانی رُت میں حسِ شامہ بھی گئی
کاغذ کے ایک پھول کو مَیں سونگھتا رہا

اب ڈوب جاؤں مَیں یہاں پر یا ابھر سکوں
لو اک بھنور میں آج بھی ہوں گھومتا رہا

رب کی عبادتوں کا کہاں وقت ہی ملا
شیشے میں قید عکس کو میں پوجتا رہا

مجھ سے نکال کر مجھے ہی لے گیا ہے وہ
پِنجر میں ہاتھ ڈال کے مَیں ڈھونڈتا رہا

فیصل خمارِ رزق میں اوندھا پڑا ہوا
بھر کے شکم کی دوزخوں کو اونگھتا رہا

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں