غزل

غزل : رحمان حفیظ

پوچھ مت نارسادعاؤں کی
دیکھ تنویر کہکشاؤں کی

بے زمیں راستے ہوئے آباد
اْڑ گئی نیند دیوتاؤں کی

آسماں ہے کہ چادرِ تخیل
کہکشاں ہے کہ دْھول پاؤں کی

اک تماشائی اور دس کردار
ایک تمثیل دھوپ چھاؤں کی

ہے تحرّک میں ایک اک محور
سانس پھولی ہے سب دشاؤں کی

قرض باقی ہے ابتداؤں کا
جستجو بھی ہے انتہاؤں کی

آنکھوں آنکھوں میں گفتگو کیجے
کٹ چْکی ہے زباں صداؤں کی

ہم کہ سورج سے دل لگا بیٹھے
اور سورج نے کس پہ چھاؤں کی!

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں