رحمان حفیظ
ہوئے ہجرت پہ مائل پھر مکیں آہستہ آہستہ
بہت سی خواہشیں دِل سے گئیں آہستہ آہستہ
ہَوا اس سانحے میں غیر جانبدار نکلی، سو
دھوئیں کی ایک دو موجیں اٹھیں آہستہ آہستہ
مجھے ماہِ منور نے بہت اْلجھائے رکھا، اور
سمندر کھا گئے میری زمیں آہستہ آہستہ
مری آنکھیں گماں کے سِحر میں ہی تھیں مگر دل میں
نمو پاتا گیا سچا یقیں آہستہ آہستہ
بڑی تیزی سے چلتا آ رہا تھا اپنی جانب میں
کہ دل سے اک صدا آئی ’’ نہیں!آہستہ آہستہ‘‘
میں اب آئندہ کے پھیلاؤ کو ترتیب دینے کو
ہْوا جاتا ہوں خود میں تہہ نشیں آہستہ آہستہ