میں آج جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو یقین جانیں میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔میں ایک استاد ہوں اور ایسے ملک کا استاد ہوں جہاں استاد کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں۔یہ ایسا بے حس ملک ہے جہاں استاد معاشرے کا انتہائی کم تر طبقہ سمجھا جاتا ہے۔یہ معاشرہ محلے کے کونسلر‘پٹواری اور ناہل سیاست دان کو اہمیت دے لے گا لیکن یہ ایک استاد کو اپنا غلام سمجھے گا۔یہ معاشرہ ہر طبقے کو عزت دے سکتا ہے‘اس سے ڈر سکتا ہے لیکن یہ استاد کو عزت نہیں دے سکتا‘یہ استاد کو کسی کھاتے میں نہیں رکھتا۔میں گزشتہ دس سال سے شعبہ تدریس سے منسلک ہوں اور میں پاکستان کے انتہائی اہم اور بڑے پرائیویٹ اداروں میں بطور استاد اپنی خدمات دے چکا ہوں اور آج بڑے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ جب سے اداروں کے مالکان نے شعبہ تعلیم کو بزنس بنایا ‘استاد کا مقام بہت پیچھے رہ گیا۔اب تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو سختی سے کہا جاتا ہے کہ کوئی سٹوڈنٹس بدتمیزی کرے تب بھی برداشت کر جائیں کیونکہ ہم ان سے فیس لیتے ہیں اور ان سے ہی ہمارا دارہ چلتا ہے۔قارئین میں فنگر ٹپس پہ ایسے اداروں اور مالکان کے نام بتا سکتا ہوں جو اساتذہ کو محض پیسہ کماکے دینے کی مشین سمجھتے ہیں۔وہ سٹوڈنٹس کی بدمعاشیاں محض اس لیے برداشت کرتے ہیں کہ یہ ان سے فیسیں وصول کرتے ہیں۔آج مجھے کالم لکھتے ہوئے خدا کی قسم رونا آ رہا ہے کہ میں نے کیوں ایک ایسے ملک میں تدریس کے شعبے کا انتخاب کیا جہاں استاد کی دو کوڑی کی عزت نہیں۔آئے روز کالجز‘اکیڈمیز اور کوچنگ سینٹرز میں اساتذہ کو ذلیل ہوتے دیکھ رہا ہوں اور یہ کام پچھلے دس سال سے دیکھا اور محسوس کیا مگر آج تو انتہا ہو گئی جب مجھے معلوم پڑا کہ پیر یعقوب شاہ ڈگری کالج پھالیہ(منڈی بہائوالدین)میں سٹوڈنٹس نے استاد کو فائرنگ سے زخمی کر دیا اور وجہ صرف یہ ہے کہ اس نے قوانین کی پابندی کرنے کی تلقین کی۔
یہ پانچ دسمبر کا واقعہ ہے۔پیر یعقوب شاہ ڈگری کالج‘پھالیہ کے فزیکل ایجوکیشن کے استاد پروفیسر ظفر اقبال اپنے بچوں اور والدہ کے ہمراہ سفر پہ جا رہے تھے کہ راستے میں تین موٹر سائیکل سوار سٹوڈنٹس نے ان کی گاڑی روکی‘استاد کا نام لے کر بلند آواز میں گالی دی‘اس کا گریبان پکڑا اور گاڑی سے اتار لیا‘ہاتھا پائی کی‘گاڑی کی ونڈ سکرین توڑی اور ان پر فائر کھو ل دیے جس کے نتیجے میں ان کی دونوں ٹانگیں زخمی ہوئیں اور وہ ہسپتال پہنچ گئے۔آج اس واقعے کو پانچ دن گزر گئے اوروہ ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور میں پانچ دن سے صدمے میں ہوں۔میں ہسپتال پہنچا تو وہ ہسپتال میں ہر آنے جانے والوں کے سامنے سے مسکرا کر یقینا ایک ہی سوال کررہے ہیں کہ ’’کیا میرا صرف یہی جرم ہے کہ میں ایک استاد ہوں اور یہ معاشرہ استاد کے لیے بالکل نہیں بنا‘‘۔میں منڈی بہائوالدین میں موجود سٹوڈنٹس یونینز کا عینی شاہد ہوں‘وہ میرا شہر ہے اور اس شہر میں آج تک سٹوڈنٹس یونینز نے نہ تو کئی بڑا لیڈر پیدا کیا اور نہ ہی کوئی قابلِ فخر انسان۔یہ علاقہ ایک عرصہ تک علمی و ادبی سرزمین سمجھا جاتا رہا مگر مجھے آج انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی کالج(رسول)،گورنمنٹ ڈگری کالج منڈی بہائوالدین، گورنمنٹ بوائز کالج ملکوال اور پیر یعقوب شاہ ڈگری کالج پھالیہ میں کوئی بھی سٹوڈنٹس یونین مثبت کام نہیں کر رہی ۔وہاں یونینز میں موجود ممبرز محض غنڈہ گردی کرنے‘اساتذہ اور سٹوڈنٹس کو پیٹنے اور جنگ و جدل کرنے کے علاوہ کوئی کام نہ کر سکتے ہیں اور نہ کر رہے ہیں۔
میں نے گزشتہ کالم میں کہا تھا کہ موجودہ دور میں سٹوڈنٹس یونین غندہ گردی کے علاوہ کیا کام کر رہی ہیں‘یہ ایک سروے ہونا چاہے اور ہمیں بھی معلوم ہو کہ یہ یونین کس لیے ضروری ہیں۔آپ پچھلے دس سال میں منڈی بہائوالدین سمیت دیگر بڑے شہروں میں بننے میں یونینز کے صدوراور دیگر عہدیداران کی فہرست نکال لیں اور بتائیں کون سا طالب علم کس بڑے مقام پہ پہنچا‘آپ خود فیصلہ کر لیں گے کہ طلبا یونین نے کتنا اہم کردار ادا کیا لیکن میں کبھی بھی ان کے حق میں نہیں رہا ۔میں آج بھی یہ کہتا ہوں جو سٹوڈنٹس یونینز بچوں کی تربیت نہیں کر سکتی‘بچوں کو استاد کا احترام نہیں سکھا سکتی ان یونینز کے ہمیشہ کے لیے بین کرنا چاہیے اور جو واقعہ پھالیہ میں پیش آیا اس میں ملوث سٹوڈنٹس کو اتنی سخت سزا دینی چاہیے کہ ہر ’’جاہل اور نکمے سٹوڈنٹ لیڈر‘‘ کی آنکھیں کھل جائیں کہ یہ معاشرہ سب سے پہلے استاد کو احترام دینا چاہتا ہے اور یقین جانیں جو معاشرہ استاد کو احترام نہیں دے سکتا وہ دنیا کا ذلیل ترین معاشرہ بن جاتا ہے اور اسے تباہ ہونے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا کیونکہ میرے پیارے نبیﷺ کو استاد بنا کر بھیجا گیا تھا اور استاد ہی اس معاشرے کا ہیرو ہے۔پاکستان کی بدقسمتی ہی یہ ہے کہ یہاں ناہل حکمرانوں کو سر آنکھوں پہ بٹھایا گیا مگر استاد کی عزت کو پائوں تلے رودا جاتا ہے۔آپ کسی پولیس کانسٹیبل‘کسی ٹریفک وارڈن کو بتائیں کہ آپ ایک استاد ہیں‘وہ اتنی تضحیک سے آپ کی جانب دیکھے گا جیسے آپ اس کا حق کھا رہے ہیں مگر یہ لوگ محلے کے کونسلر اور سیاست دان کے لے تمام ٹریفک کے رولز توڑنے پہ آمادہو جائیں گے۔مجھے آج تو یوں لگ رہا ہے کہ اس ملک میں اساتذہ اور تعلیم کے میدان کو ختم کر دینا چاہے کیونکہ یہ معاشرہ ناہل اور نکموں کے لیے بنا ہے اور اسے وہی بہتر چلا سکتے ہیں۔کتنی عجیب بات ہے کہ یہاں والدین نے بھی اپنے بچوں کو نہیں سکھایا کہ ’’بیٹا استاد کا مقام والدین سے زیادہ ہے‘‘۔جن بچوں نے پروفیسر ظفر اقبال پہ فائرنگ کی‘اگر ان کے والدین میں غیرت ہے تو وہ انہیں خود سزا دیں کہ ان کے بچوں نے قوم کا گریبان پکڑا‘اس پہ ہاتھ اٹھایا‘تف ایسے والدین پہ۔یقین جانیں یہ معاملہ اگر ایسا ہی چلتا رہا‘یہ سٹوڈنٹس لیڈر اسی طرح غنڈہ گردی اور بدمعاشی پھیلاتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب اس ملک کا ہر استاد اپنے شعبے سے مستعفی ہو جائے گا اور پھر یہ معاشرہ بغیر استاد کے چلے گا اور وہ کیسے چلے گا اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔میں پاکستان بھر کے اساتذہ سے دست بستہ گزارش کروں گا کہ خدارا ایسی صورتحال میں بالکل خاموش نہ بیٹھیں کیونکہ اب وہ وقت نہیں کہ یہ معاشرہ آپ کو عزت دے گا بلکہ ان سے عزت لیں ورنہ اس معاشرے کو تعلیم دینے کی بجائے بد دعائیں کیونکہ استاد کی بددعا خدا کے عرش پہ فوراً پہنچتی ہے۔ میں پروفیسر ظفر اقبال سمیت منڈی بہائوالدین کے تمام اساتذہ کرام سے گزارش کروں گا کہ اس معاملے پہ بالکل خاموش نہ بیٹھیں‘آج تو پروفیسر ظفر اقبال کا گریبان پکڑا گیا‘کل کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے سو اس معاملے میں سنجیدگی لیں اور جب تک پروفیسر ظفر اقبال کو انصاف نہ ملے چپ نہ بیٹھیں۔میں ڈی پی او منڈی بہائوالدین سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ جناب آپ کی یہ کرسی بھی استاد کی دی ہوئی ہے سو اس کرسی کی عزت رکھ لیں اور پروفیسر ظفر اقبال کو انصاف دیں کیونکہ وہ ایک استاد ہے اور آپ تصور کریں کہ جس معاشرے میں استاد کا گریبان پکڑا جائے وہ معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے؟۔۔۔