غزل

غزل : سعیداشعر

وہ لفظ مٹا دے گا    زیادہ سے زیادہ
کاغذ بھی جلا دے گا زیادہ سے زیادہ

اظہار کی کوشش تو کروں سامنے اس کے
آواز دبا دے گا     زیادہ    سے زیادہ

فی الحال تو جاتا ہوں وہاں سامنے اس کے
محفل سے اٹھا دے گا زیادہ سے زیادہ

یہ عشق مرا    اور بگاڑے گا بھلا کیا
بیمار بنا    دے گا زیادہ سے زیادہ

یہ شہر مری رہ میں ہمیشہ کی طرح پھر
دیوار اٹھا   دے    گا زیادہ سے زیادہ

دشمن ہے اگر وہ تو مری دشمنی میں اب
تلوار اٹھا دے گا    زیادہ سے زیادہ

آگے نہیں بڑھتا کوئی مشکل میں کسی کی
ہر شخص دعا    دے گا زیادہ سے زیادہ

اس دشت میں مشکل ہے مجھے ڈھونڈنا اشعرؔ
وہ    مجھ کو صدا دے گا زیادہ سے زیادہ

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں