شاعر: افضل گوہرراو
مجھ کو دے پانی کہ میرا کھیت بنجر ہوگیا
تُو تو دریا سے بڑا ہو کر سمندر ہوگیا
اتنا کاندھوں پر مشقت کی تھکن کا بوجھ تھا
گھر کے دروازے پہ آ کر جسم پتھر ہو گیا
جا بجا پھیلے ہوئے تھے ریت کے ٹیلے بہت
اک ہَوا آئی تو سب صحرا برابر ہوگیا
میں نے پوچھا تھا کہ کیسا ہے اندھیرے کا مزاج
اک ستارا آسماں سے گر کے پتھر ہو گیا
پیڑ کیا ٹوٹا ہے گوہر آندھیوں کے زور سے
شاخ پر بیٹھا پرندہ خون سے تر ہو گیا