اونچے نیچے مکانوں کی خالی منڈیروں پہ
لاکھوں برس گہری نیندوں میں سوئے پہاڑوں کی گم چوٹیوں تک،
زماں دیدہ بوڑھے درختوں کی
بے برگ شاخوں میں،
ٹھنڈی ہوا چلتے چلتے ٹھہر سی گئی ہے
ابھی تک یہ دل رات دیکھے ہوئے
خواب ِ بد کے سبب سہما سہما سا ہے
آج بھی میں نے معمول کے کام سب کر لئے ہیں
اور اب گھر کو جانے سے پہلے
جہاں کل کی روٹی میں رکھا ہوا ٹھنڈا سالن، مرا میلا بستر مرے منتظر ہیں
میں ٹھٹھرے ہوئے ہاتھ پتلون کی خالی جیبوں میں ڈالے ہوئے
اس پرانے سے لکڑی کے دروازے میں رک گیا ہوں
کوئی کہہ رہا ہے
” سنو! خامشی ایک بھولے ہوئے گیت کی دُھن ہے ”
لیکن ابھی دل غمِ روزمرہ سے فارغ نہیں
آج کی ڈاک میں بھی مجھے صرف سرکاری خط ہی ملے ہیں
کوئی واقعہ، کوئی دن، کوئی چہرہ مری سرد آنکھوں میں آ کر چمکتا نہیں
روشنی گھٹتی جاتی ہے
بس برف گرنے ہی والی ہے
افتخار بخاری