نظم

بہنا کے لیے ایک نظم : سعید اشعر


"میں دلدل میں ڈوبے سورج کی
پرچھائیں ہوں
نا محرم رشتے
میرا آموختہ ہے
کاغذ پر
اصلی ہاتھوں سے
جعلی مہریں ثبت ہوئی”
"دیکھو بہنا
مرشد کی خاموشی ٹوٹے گی
آؤ لنگر کرتے ہیں
اس کی برکت سے
آنکھیں اور سینہ روشن ہوتے ہے
سانس کی نالی کی جلن کم ہوتی ہے”
باغ سےآنے والی ہوا سے
کھڑکی پر لٹکے پردوں کی
رنگت اڑنے لگی ہے
حدت سے
کواڑوں کی لکڑی کے اندر کی گوند
دانہ دانہ جلدی بیماری کی صورت
ظاہر ہو رہی ہے
کمرے میں رکھی سبز کتابیں جلنے لگی ہیں
الماری میں رکھے زیور کو
دیمک چاٹ رہی ہے
دروازے کی چوکھٹ پر
رستہ بیٹھا ہے
صحن میں
جانے کب سے
اک شہتوت کھڑا ہے
نوبت بجنے لگتی ہے
میں نے مرشد کی جانب دیکھا
اس کی آنکھوں میں
خون کی سرخی ہے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی