ڈاکٹرناصر عباس نیر ّ
’معنی نہ آئیں درک میں غیر از وجود لفظ‘
(قائم چاند پوری)
ژاک دریدا (۱۹۳۰ء۔۲۰۰۴ء )نے ۱۰؍ جولائی ۱۹۸۳ ء کواپنے جاپانی دوست پروفیسر تو شہیکو ازتسوکے نام ایک خط لکھا۔زین بدھ مت کو ماننے والے پروفیسر ازتسو (۱۹۱۴ء۔۱۹۹۳ء)اسلام، تصوف اور فلسفے کے ماہر تھے ،جب کہ لسانیات اورمابعد جدیدیت سے گہری دل چسپی رکھتے تھے۔(ان کے مضامین کا اردو ترجمہ محمد عمر میمن نے ’’آفرینش اور اشیا کا بے زمانی نظام ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے ،جسے گزشتہ سال مجلس ترقی ادب ،لاہور نے شایع کیا ہے )۔مشرق کی تینوں کلاسیکی زبانوں یعنی عربی،فارسی ،سنسکرت کے علاوہ انگریزی، یونانی ،پالی ،چینی اور روسی بھی جانتے تھے۔ انھوں نے اسلام ،تصوف ، تائو مت،زین مت اور ادیان کے تقابلی مطالعے پر کئی کتا بیں لکھی ہیں۔ ۱۹۵۹ء میں انھوں نے قرآن مجید کا ترجمہ عربی سے براہ راست جاپانی زبان میں کیا۔مونٹریال اور تہران کی جامعات میں اسلامی فلسفہ اور فلسفہ کی تعلیم دینے والے پروفیسر ازتسو نے اپنے علمی کیرئیر کے آغاز (۱۹۵۶ء)میں ایک کتاب زبان اور جادو کے نام سے بھی لکھی تھی ۔یہ وہی زمانہ تھا ،جب عالمی دانش ورانہ دنیا میں زبان:فلسفیانہ اور سائنسی ،سماجی مطالعات کا اہم ترین موضوع بنی ہوئی تھی۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر ازتسو نے لکھا کہ ’’اس امر سے کوئی انکار نہیں کرے گا کہ موجودہ زمانے کے اہم سروکاروں میں زبان کا درجہ پہلا ہے ‘‘۔اسی احساس کے تحت وہ انسانی فکر ،فکر کے مختلف طریقوںاور عمل پر زبان کے جادوئی اثر کا مطالعہ کرتے ہیں؛نیز جادو کی رسوما ت میں زبان کے کردار کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں۔ اگرچہ بعد میں ان کی دل چسپی زبان سے زیادہ فکر سے ہوگئی،بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ خالص نظری مباحث کے مقابلے میں وہ ایک قسم کی عملیت پسندی کے قائل ہوگئے ۔ انھوں نے مذاہب کے تقابلی مطالعے اس غرض سے بھی کیے کہ وہ مذاہب ِ عالم میںملتے جلتے اعتقادات دریافت کرکے،دنیا کو یہ باور کراسکیں کہ ان کے درمیان فرق و فاصلہ کم اور اشتراکات زیادہ ہیں۔ ان کے پیش نظر لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور رواداری کے فروغ کے لیے علمی فضا پیدا کرنا تھا،تاہم دریدا کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں زبان ایک بار پر اہم مسئلے کے طور پر ظاہر ہوتی محسوس ہوتی ہے۔
دریدا کے ازتسو کے نام لکھے گئے خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کی پہلے بھی ملاقاتیں ہوچکی تھیں،او ر ان ملاقاتوں میں دریدا کی ڈی کنسٹرکشن زیر بحث آئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خط کا آغاز دونوں کی اس ’گزشتہ ملاقات‘ کے ذکر سے ہوا ہے، جس میں دریدانے ڈی کنسٹرکشن سے متعلق’ کچھ مرتب اور تمہیدی خیالات‘ کا وعدہ کیا تھا۔خط کے متن سے ظاہر ہے کہ پروفیسر ازتسو ڈی کنسٹرکشن کا جاپانی میں ترجمہ کرنا چاہے تھے۔دریداکی کتابOf Grammatology ۱۹۶۷ء میں فرانسیسی میں لکھی گئی تھی،اور اس کا انگریز ی ترجمہ(از گایئتری چکرورتی) شایع ہوچکا تھا۔ اس کتاب ہی میں دریدا نے اپنا ڈی کنسٹرکشن کا تصور متعارف کروایا تھا۔ یہ ممکن نہیں کہ پروفیسر ازتسو نے دریدا کی یہ کتاب پڑھے بغیر ،ان سے ڈی کنسٹرکشن پر بحث کی ہو۔پورے خط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈی کنسٹرکشن عالمی دانشوروں کے لیے دل چسپی کا باعث تو بنی ہوئی تھی ،مگر اسے سمجھنے میں دانش وروں کو کئی الجھنیں پیش آرہی تھیں۔خود دریدا کوان الجھنوں کا احساس تھا۔اسی لیے وہ اس خط میں نہ صرف پروفیسر ازتسو کی الجھنوں کو سلجھانے کی کوشش کرتے محسوس ہوتے ہیں،بلکہ انتہائی بنیادی سطح پر جاکر، اس اصطلاح کی جڑوں تک پہنچ کر اسے واضح کرتے ہیں ۔انتہائی بنیادی سطح تک جاکر اسے واضح کرنے کا باعث ایک طرف خود ڈی کنسٹرکشن کے معانی کا مسلسل سیال اور متغیرحالت میں ہوناہے،اور دوسری طرف جاپانی یا کسی دوسری زبان میں اس کو منتقل کرنے کی راہ میں حائل ہونے والی مشکلات کے ممکنہ حل کی سعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریر ’خط ‘ سے کہیں بڑھ کر ہے؛خط اپنے روایتی کردار کے اعتبارسے دو شخصوں کے درمیان خیالات اورمعلومات کا تبادلہ ہے ،اس لیے خط کی بنیادی اہمیت ان دوشخصوں اور ان سے متعلق لوگوں کی دل چسپی تک محدود ہوتی ہے ،جب کہ یہ خط،جاپانی پروفیسر اور فرانسیسی مفکر کے شخصی تعلق کے محدود دائرے سے نکل کر، عام علمی دل چسپی کے حامل متن کا درجہ اختیار کر گیا ہے ۔اس خط کی تاریخی حیثیت پیش نظر رکھی جاتی رہے گی کہ یہ ایک ’جاپانی دوست کے نام‘ لکھا گیا تھا،مگر جب جب اسے ڈی کنسٹرکشن کے وضاحتی متن کے طو ر پر پڑھا جاتارہے گا، مذکورہ حیثیت ڈی کنسٹرکٹ ہوتی رہے گی ۔واقعہ یہ ہے کہ ڈی کنسٹرکشن سے متعلق شاید ہی کوئی ایسی تحریر ہو ،جس میں اس خط کا حوالہ نہ دیا جاتا ہو۔ تاہم یہ خط ڈی کنسرکشن کے حوالے سے ایک اہم پیراڈاکس کو بھی سامنے لاتاہے ،جس کی طرف ہم آخر میں اشارہ کریں گے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا،دونوں کی آخری ملاقات میں اصل مسئلہ ڈی کنسٹرکشن کے جاپانی ترجمے کا زیر بحث آیا تھا۔ دریدا کے تعلق سے آخر صرف ڈی کنسٹرکشن کے جاپانی ترجمے ہی کا سوال کیوں اٹھا؟اس کا جواب یہ ہے کہ دریدا کے یہاں مرکزی تصو ر یہی ڈی کنسٹرکشن ہے،باقی سب تصورات جیسے موجودگی کی مابعدالطبیعیات ، مبہم نشان، متخالف جوڑے،ضمیمہ، تحریر، لوگو مرکزیت، صوت مرکزیت،معنی کا التوا وفرق(Differance) او ر ،hymen،pharmakon،marge،entame، paregonوغیرہ ڈی کنسٹرکشن سے کسی نہ کسی سطح پر وابستہ ہوجاتے ہیں،اس کی وضاحت کرتے ہیں،یا اس کے بنیادی مباحث کا ضمنی موضوع بنتے ہیں۔یوں ڈی کنسٹرکشن خود اپنے آپ میں قائم اور سب سے الگ تھلگ اصطلاح نہیں ہے ،بلکہ مذکورہ الفاظ کے سیاق میں خود کو واضح کرتی ہے (خط میں آگے چل کر دریدایہ بات زور دے کر کہتے ہیں)۔یہی بات ڈی کنسٹرکشن کے ترجمے کو مشکلات کا شکار کرتی ہے۔اتنے سارے تصورات سے جڑی ہوئی اصطلاح ،کیسے کسی او زبان میں منتقل ہوگی؟لیکن اس کے علاوہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے ،جس کا تعلق اس ترجمے سے ہے۔ یہ کہ ڈی کنسٹرکشن جس مفہوم کی حامل ہے ،کیا وہ مفہوم منتقل ہونے کی صلاحیت ،گنجائش اور خاصیت کا حامل ہے ؟ ا س سوال کے جواب ہی میں دریدا یہ کہتے محسوس ہوتے ہیں کہ :’ڈی کنسٹرکشن کاسوال‘ سربسر’ ترجمے کا سوال ‘ہے۔یعنی بالکل سادہ زبان میں کیا ڈی کنسٹرکشن کا ترجمہ ممکن ہے؟ کیا ڈی کنسٹرکشن اپنے اندر کچھ ایسے تصورات ،معانی رکھتی ہے ،جن کے لسانی مساوی کسی دوسری زبان میں ممکن ہیں،اور کیا یہ معانی وتصورات ایک زبان سے دوسری زبان میںمنتقل ہونے کی خاصیت رکھتے بھی ہیں یا نہیں ؟ اس کاہاں میں جواب میں دینا، ڈی کنسٹرکشن کی روح سے لاعلمی ہی ظاہر کرتاہے۔ یہ (جسے ڈی کنسٹرکشن کے تعلق سے ،دریدا بے جان شے کے لیے برتا جانے والا ضمیر نہیں سمجھتے ) کسی تصور کے استحکام ، کسی معنی کے ٹھہرائو کے خلاف ہے۔’ڈی کنسٹرکشن کا ترجمہ ممکن ہے‘یہ تسلیم کرنے کا صاف سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ ایسے معانی ،تصورات ہیں جو مستحکم ہیں،اور جو زبان سے الگ وجود رکھتے ہیں،اور انھیں ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کیا جاسکتاہے؛نیز وہ سب زبانوں میں پہلے سے موجود ہیں۔ ڈی کنسٹرکشن اسی کو تو ڈی کنسٹرکٹ ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔ لہٰذا اسی ضمن میں دریدا لکھتے ہیں کہ یہ سادہ لوحی ہوگی کہ اگر کوئی اس بات کا یقین کرنے لگے کہ فرانسیسی میں بھی ڈی کنسٹرکشن کا کوئی واضح اور وحدانی متبادل موجودہے۔ آگے وہ واضح کرتے ہیں کہ فرانسیسی ہی میں نہیں، کسی بھی زبان میں اس کا متبادل نہیں ہوسکتا۔اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ کیا دریدا اس طرح ڈی کنسٹرکشن کے ضمن میں پراسراریت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یا اسے ان الفاظ کی قبیل میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جوبعض علمی و فلسفیانہ اصطلاحات کی صورت موجود ہیں،یا وہ مذہبی ،روحانی تجربے کے سرچشمے اورماہیت سے اس طر ح جڑے ہوتے ہیں کہ انھیں الگ نہیں کیا جاسکتا؟جیسے مایا، نروان ،شونیتا،وحدت الوجود ،توحیدجیسے الفاظ کا ترجمہ ممکن نہیں۔دریدا پراسرایت کا لفظ استعمال نہیں کرتے ،مگراسی خط میں ڈی کنسٹرکشن کے ضمن میں ’ابہام ‘ کا لفظ ضرور استعمال کرتے ہیں،او ر کہتے ہیں کہ اس کی تقدیر ’ابہام‘ ہی پر منحصر ہے۔بایں ہمہ وہ خط کے آخر میں واضح کرتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن کاترجمہ کرنے میں حرج نہیں ،مگر وہ ترجمہ اصل لفظ کا طفیلی نہیں ہوگا،بلکہ نیا، اور خود اپنے طور پر مستند ہوگا۔مزید وضاحت آگے آئے گی۔
ڈی کنسٹرکشن کے جس ابہام کی طرف دریدا اشارہ کررہے ہیں، وہ صرف واحد معنی کی نفی سے عبار ت نہیں ،بلکہ معنی ،صور ت ،ہیئت ،طریقے ، نظریے ،او ران سب کو وجود میں لانے والے ماڈل کی نفی سے بھی عبارت ہے،(اور اس کے تنقیدی، فلسفیانہ اور مذہبی مضمرات غیر معمولی ہیں )۔آخر ہر ماڈل بھی توذہن پر اجارہ حاصل کرلیتا ہے ،یعنی آپ کو خاص طرح سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے،اور آپ سے مختلف ،متبادل ،دوسرے انداز میں آزادانہ سوچنے کی آزادی اور اختیار چھین لیتا ہے،او ر اپنی لاشعوری عمل آرائی سے آپ کو اپنے اجارے کا علم بھی نہیں ہونے دیتا ۔معنی و صورت و ہیئت کی مسلسل نفی کوفہم عامہ اور صحافتی سطح پر قبول کرنے میں دقت پیش آتی ہے؛دونوں استحکام چاہتی ہیں ،اور استحکام کی خواہش ہی کی بنا پر یہ مختلف آئیڈیالوجیوں کے اجارے کا وسیلہ بنتی ہیں۔مسلسل نفی کی جس حالت کو ڈی کنسٹرکشن پیش کرتی ہے،وہ تنقیدی ، فلسفیانہ اور مذہبی فلسفیانہ سطح پر بے حد اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ ان سب اردو والوں کے لیے یہ بات حیران کن ہوگی ،جو ڈی کنسٹرکشن کو خدا یا منشائے خدا کی نفی کا ’نظریہ ‘ سمجھتے ہیںکہ بعض عیسائی مذہبی فلسفیوں (جیسے جان ڈی کیپوٹو) نے ڈی کنسٹرکشن کو ’بت شکنی ‘ یعنیIconoclasm کا طاقت ور طریقہ قرار دیا ہے۔ ان کا مئوقف ہے کہ ڈی کنسٹرکشن جس طرح ایک ایک کرکے معنی کے استحکام کی نفی کرتی جاتی ہے ،یہ عمل ان سب بتوں کو توڑنے کے مترادف ہے ، جوانسانی ادارک کی گرفت میں نہ آنے والے خدا کے راستے میں حائل ہوتے ہیں؛نیز مسلسل نفی کی حالت ہی مسیح کے ورود اور ضرور ت کا احساس ابھارتی ہے۔حضرت علی علیہ السلام نے ایک مرتبہ کسی شخص کو یہ کہتے سنا کہ خدا سات مختلف پردوں میں پوشیدہ ہے۔اس پر آپ نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ ’’خدا اس سے منزہ ومبراہے کہ وہ کسی چیز میں پوشیدہ ہویا اس میں کوئی چیز پوشیدہ ہو۔خدا کو مکان کی احتیاج نہیں ہے ،اور زمان کی کوئی شے اس سے مخفی نہیں ہے‘‘۔پردہ :شے اور مکان ہے ۔یہی خصوصیت صفت کی بھی ہے۔ صفت ایک ’لسانی مکان‘ہے،یا لسانی بت ہے ،جب تک اسے ڈی کنسٹرکٹ نہیں کیا جاتا، اس امر کو باور نہیں کرایا جاسکتا کہ خدامکان کی محدودیت،اور صفت کی معنیاتی حدبندی سے ماوراہے۔ مختلف معانی اور حدبندیوں کی نفی کرتے ہوئے ،مطلق نفی کے بعد خدا کا تصور روشن ہوتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دریدا ڈی کنسٹرکشن کے لیے اسی خط میں ’’منفی الہیات ‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں۔ مغربی مذہبی فلسفیوں نے خدا کو مثبت الہیات (Cataphatic theology ) اور منفی الہیات،دونوں طریقوں سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمان صوفیا کے یہاں بھی ’لا‘ کا تصور خدا کو منفی طریقے سے بیان کرتاہے۔اسی طرح بودھی فکر میں شونیتا(شونیہ بہ معنی صفر،خالی پن)کی مدد سے مکمل منفی کا تصورپیش کیا گیا ہے۔ان مماثلتوں کی طرف اشارے کا ہرگز مطلب نہیں کہ یہ سب ایک ہی مفہوم کے حامل ہیں،بلکہ ان سب کو متوازی پیش کرکے ،ان سب کے ،بہ یک وقت ملتے جلتے اور متفرق مفاہیم کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔انسانی علم اور ثقافتی رواداری میں اضافے کا اہم ذریعہ اسی طرح کے تقابلی و متوازی مطالعات ہیں۔
دریدا ڈی کنسٹرکشن کے ترجمے کو اس کی تفہیم کا حصہ سمجھتے ہیں،اور اس کی تفہیم کو ایک سادہ عمل نہیں سمجھتے۔لہٰذا وہ یہ واضح کرنا نہیں بھولتے کہ چوں کہ ڈی کنسٹرکشن میں ابہا م ہے ،اور معنی کے استحکام کے خلاف مزاحمت مضمر ہے ،اس لیے اس کے ترجمے کا عمل ،دراصل اس کی تفہیم کے عمل کو ’ملتوی‘ کرتا ہے ۔واضح رہے کہ معنی کاملتوی ہونا،معنی کا نہ توانہدام ہے ، نہ معنی کے موجود ہونے کے تصور کی نفی ہے،بلکہ معنی کے استحکام کی نفی ہے؛ آخر وہی شے ملتوی ہوتی ہے ،جو موجود ہو۔
دریداکے اس خط کو جوبات ایک اہم ترین دریدائی متن بناتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اس میں دریدا نے ڈی کنسرکشن کا تصور وضع کرنے کی کہانی بھی بیان کی ہے۔ اس کہانی ایک پہلو خالص لسانی ولغوی ہے ،دوسراتاریخی ہے ،اور تیسرا معنیاتی ہے۔
دریدا واضح کرتے ہیں کہ انھیں یہ لفظ اپنی کتاب Of Grammatologyلکھتے ہوئے بے ساختہ سوجھاتھا۔اس کتاب میں ان کا مقصد مغربی مابعدالطبیعیات یا وجودیات کی روایتی ساخت پر خاص طرح کی عمل آرائی کو واضح کرنا تھا۔ اس کے لیے وہ مناسب اصطلاح کی تلاش میں تھے ۔ان کے سامنے ہائیڈگر ی جرمن لفظ Destruktionیا Abbauتھا۔ہسرل کے شاگرد مارٹن ہائیڈگر سے دریدا کا فکری تعلق قائم ہوچکا تھا ۔دریدا نے ۱۹۶۲ء میں ہسرل کی کتاب The Origin of Historyکا ایک پوری کتاب پر محیط مقدمہ لکھا تھا اور بعد میں ایک اور کتاب تقریر اور مظہر (Speach and Phenomenon)میں ہسرل پر مضامین بھی لکھے۔دریدا کی بعد کی کتابOf Spirit ہائیڈگر پر بحث کرتی ہے۔دریدا کو ہائیڈگری لفظ کا فرانسیسی ترجمہ ’’destruction‘‘ مناسب نہیں لگا،کیوں کہ یہ لفظ واضح طور پر انہدام یا منفی تخفیف کا مفہوم رکھتا تھا ،اور بڑی حد تک نطشے کے ’’demolition‘‘کے قریب تھا۔یوں دریدا صاف لفطوں میں کہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن کے مفہوم میں انہدام ،تباہی ، شکست وریخت شامل نہیں ہے۔ اردو میں بھی بعض لوگوں نے ڈی کنسٹر کشن کوانہدام ،توڑ پھوڑ اورشکست سے عبارت سمجھا ہے،جو ظاہر ہے درست نہیں ہے۔ دریدا کہتے ہیں کہ انھیں اچانک فرانسیسی لفظ ڈی کنسٹرکشن سوجھا اورمناسب لگا۔تاہم وہ صاف کہتے ہیں کہ فرانس میں یہ لفظ بہت کم لوگ استعمال کرتے تھے ،اور اسے جاننے والے بھی خال خال تھے۔چناں چہ انھیں اس لفظ کو ایک طرح سے نئے سرے سے تشکیل دینا پڑا۔اس لفظ کو اپنے لیے مناسب تصو رکرلینے کے بعد انھوں نے اس کے مطالب فرانسیسی لغت Littréمیں دیکھے۔انھیں وہ اپنے خط میں درج کرتے ہیں۔ ان میں چند یہ ہیں:
ڈی کنسٹرکشن : ڈی کنسٹرکٹ کرنے کا عمل ۔گرامر کی اصطلاح: جملے میں لفظوں کی تشکیل کو منتشر کرنا۔کل کے اجزا کو الگ الگ کرنا۔مشین کو ڈی کنسٹرکٹ کرنا تاکہ اسے کہیں اور پہنچایا جاسکے۔گرامرکی اصطلاح:نظم کو ڈی کنسٹرکٹ کرنا ،اس کی بحر کو ختم کرتے ہوئے ،اسے نثر کی طرح بنانا۔
دریداکہتے ہیں کہ لغت میں جن مفاہیم کو پیش کیا گیا ہے ،وہ سب انھیں دل چسپ لگے ، کیوں کہ وہ ان کے’ مقصود ‘کے قریب محسوس ہوئے تھے،لیکن یہ قطعاً ضروری نہیں کہ اگر کوئی لفظ ’مقصود‘ کے قریب ہو ،تو وہ’ مقصود‘ کا متبادل بھی ہو۔یہی وجہ ہے کہ دریدا نے انھیںاستعاراتی سطح پر قبول کیا۔ گویا ان سب مفاہیم کو ان کی موجودہ صورت میں قبول کرنے کے بجائے ،دریدا نے ان کے ’’معنی کے منطقوں اور نمونہ یا ماڈل‘‘ کو اہمیت دی؛یعنی ان منطقوں کو جہاں سے یہ معانی پیدا ہوتے ہیں،اور خاص صورت اختیار کرتے ہیں؛معنی کے بجائے ،معنی کی اصل اور سرچشمے کو۔(یہیں ڈی کنسٹرکشن ساختیات کے قریب آتی ہے ،اور اسے اپنا سیاق بناتی ہے)۔ماڈل کا تصور،دریدا کو سخت پریشان کرتا ہے۔ چناں چہ وہ بغیر تاخیر کے واضح کرتے ہیں کہ ’’معنی کے ماڈل اور منطقے‘‘ کو لسانی ،قواعدی خاکے تک محدود نہیں کیا جاسکتا؛میکانکی خاکے یا ماڈل کو تو جانے ہی دیجیے۔نیز یہ ماڈل بجائے خودڈی کنسٹر کشن کی زد پر آنے کے لائق ہیں۔اس کے ساتھ ہی دریدا اس بات کی بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہ ’’ماڈل‘‘ ڈی کنسٹرکشن کے لفظ او ر تصور سے متعلق متعدد بدگمانیوں کے پس منظر میں موجود ہیں۔اکثر لوگ ڈی کنسٹرکشن کو بھی ایک ماڈل تصور کرنا چاہتے ہیں ۔ دریدا زور دے کر کہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن کا مفہوم وہ ڈسکورس ہے ،جسے انھوں نے اوّل اوّل Of Grammatologyمیں پیش کیا۔گویا اس کا مفہوم یک لفظی نہیں،بلکہ پورا ڈسکورس ہے۔پروفیسر ازتسو کو بھی آخر میں یہی کہتے ہیں کہ جاپانی میں ڈسکورس ہی ڈی کنسٹرکشن کو واضح کرسکتا ہے۔
دریدا اعتراف کرتے ہیں کہ ساختیات ہی ڈی کنسٹرکشن کا تاریخی سیاق ہے۔دریدایہ تک کہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکٹ کرنا بجائے خود ایک ساختیاتی اشارت یا مفہوم کا حامل تھا؛ اسے ساختیاتی اشکالیے (Structuralist problematic)کی ضرورت تھی۔سادہ لفظوں میں ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ اگر دریدکے سامنے ساختیات نہ ہوتی ،جو ساخت،نظام ،ماڈل کی حامل ہے ،تووہ ساخت کی حدود، اس کے معنی کو پابند اور منظم کرنے کی خصوصیت سے آگاہ نہ ہو پاتے۔ ماڈل کی غیر موجودگی میں وہ کس کو ڈی کنسٹرکٹ کرتے؟چناں چہ ایک طرف ساختیات،ڈی کنسٹرکشن کا سیاق ہے ،و دوسری طرف وہ ساختیات مخالف بھی ہے۔ دریدا کا مئوقف ہے کہ تمام طرح کی ساختوں کو الٹایا جاناچاہیے،انھیں تحلیل کیا جاناچاہیے،انھیں تہ نشین ہونے سے بچانا چاہیے۔ ساخت میں دریدا ہر طرح کی ساختوں ،جیسے لسانی، لوگو مرکزی،صوت مرکزی، سماجی ادارہ جاتی،سیاسی، ثقافتی او ر سب سے بڑھ کر فلسفیانہ ساختوں کو شامل کرتے ہیں،اور ان سب کوڈی کنسٹرکٹ کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔ دریدا اس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ساختیات کے ساختوں کے تصو ر کو الٹانے کی بنا پر ہی ڈی کنسٹرکشن کو امریکا میں پس ساختیات کہا گیا۔فرانسیسیوں کو امریکیوں ہی سے پس ساختیات کا علم ہوا،او ر ہم اردو والوں کو انگریزی کے توسط سے۔
اس کے بعد دریدا ڈی کنسٹرکشن کی کہانی کے سب سے اہم اور نازک پہلو کا ذکرکرتے ہیں،یعنی اس کا معنیاتی پہلو۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا،دریدا نے ڈی کنسٹرکشن کے لغوی معانی کے ماڈل اور منطقوں سے استعاراتی دل چسپی محسوس کی تھی۔گویا انھیں معانی سے زیادہ ،معانی کے سرچشمے سے دل چسی تھی۔یہ دل چسی صاف طور پر ساختیات کی عطاکردہ ہے ۔ساختیا ت ،معنی کی تشریح نہیں کرتی ،بلکہ یہ سمجھنا چاہتی ہے کہ معنی کہاں سے نمودار ہورہے ہیں، اور کیسے تشکیل پارہے ہیں۔ معنی کے سرچشمے تک رسائی کا مطلب، ماضی کی طرف پلٹنا ہے ۔یہ نکتہ شامل کرکے ،دریداساختیات سے پہلا گریز کرتے ہیں۔ماضی کی طرف جانے کو ساختی عمل سے زیادہ تاریخی عمل سمجھتے ہیں۔وہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن ،تباہ نہیں کرتی ،بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے کہ کیسے کوئی کُل (ensemble)تشکیل دیا گیا تھا۔یہ بات اس وقت تک سمجھ میں نہیں آتی،جب تک مسلسل پیچھے کی طرف جاتے ہوئے وہاں تک نہیں پہنچ جاتے ،جہاں سے کسی کْل نے بننا شروع کیا تھا ۔کیا یہ عمل ایک سویٹریا جراب کو ادھیڑنے کی مانند ہے ،یا کسی مشین کے تمام پرزوں کوالگ الگ کردینے کی طرح ہے،یا کسی لفظ کے اشتقاقات دیکھتے ہوئے ،اوّلین لفظ تک پہنچنے کی طرح ہے ؟ کیا ہم ان سوالات کے جواب میں یہ کَہ سکتے ہیں کہ ہم کسی کْل کی اوّلین صور ت کو دوبارہ وجود میں لاسکتے ہیں؟اگر ایساکَہ سکتے ہیں تو گویا ہم ڈی کنسٹرکشن کی حالت کو سمجھنے کے قریب ہیں۔واضح رہے ہم نے ابتدائی حالت کی طرف لوٹنے کا نہیں کہا،بلکہ اسے ’وجود‘ میں لانے کاذکر کیا ہے۔مشین کے پرزوں کو جوڑ کر دوبارہ مشین کی شکل دی جاسکتی ہے،اور یہ میکانکی عمل ہزاروں بار دہرایا جاسکتاہے۔میکانکیت کا ڈی کنسٹرکشن سے کوئی تعلق نہیں۔یہی وجہ ہے کہ دریدا کہتے ہیں کہ کسی کُل کو پیچھے کی طرف لے جاتے ہوئے ،اس کی اصل کو مس کرنا،دراصل اس کی تشکیل ِنوہے؛ ڈی کنسٹرکشن احیا نہیں ہے،کسی ابتدائی حالت کواس کی قطعی حقیقی صورت میں واپس لانا نہیںہے،کیوں کہ قطعی حقیقی ابتدائی حالت ،اس شے کی نمائندگی یا متن میں تحلیل ہوچکی ہوتی ہے ۔ایک جراب ،خود جراب کے بنانے کے عمل میں مضمر ہے ۔جراب سے پہلے کی جراب کی حالت کو میکانکی انداز میں دیکھیں،یعنی اسے کھولتے چلے جائیں توہمارا سامنا دھاگوں کے ڈھیر سے ہوگا۔لہٰذا اس کی اصل واوّلین حالت تک پہنچنا،دراصل،اس اصل کی ایک نئی صورت کی تشکیل ہے۔چوں کہ ’اصل و بنیاد ’ کی تشکیل ِنو ،کشی شے کی سامنے کی صور ت،یا اس کے فوی ادارک میں آنے والے معانی کو غیر مستحکم کیے بغیر ممکن نہیںہے ،اس لیے دریدا کو بار باریہ تنبیہ کرنے کی ضرور ت محسوس ہوتی ہے کہ یہ انہدام نہیںہے۔یوں بھی تشکیلِ نو اور انہدام میں فرق کی لکیر خاصی باریک ہے۔
ڈی کنسٹرکشن ہے کیا ؟ اس کے جواب میں عموماً کہا جاتاہے کہ یہ متن کی قرأ ت کی تھیوری یاتنقید ہے،متن کاتجزیہ ہے،یامتن کے مطالعے کا طریقہ ہے۔ دریدا لگی لپٹی رکھے بغیران سب باتوں کی تردید کرتے ہیں۔وہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن نہ تو تجزیہ ہے ،نہ نقد ہے ،اور نہ طریقہ یا میتھڈ ہے۔دریدا کو باربار تصورات کی نفی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ڈی کنسٹرکشن نفی کا عمل ہے ،ساخت کی نفی ، معنی کے استحکام کی نفی ، معنی کے واحد ہونے کی نفی، معنی کے جامد ہونے کی نفی۔ تجزیے میں ہم پیچھے کی طرف چلتے ہوئے ،سادہ عنصر تک اور بالآخر ایک ناقابل تجزیہ اصل تک پہنچتے ہیں۔دریدا کہتے ہیں کہ یہ چیزیں خود فلسفیانہ اصول (Philosophemes)ہیں ،جن کی ڈی کنسٹرکشن کی جانی چاہیے۔نقد یعنی Critique کی لغوی اصل krineinاورkrisisہیں۔ان کے مطالب میں فیصلہ، انتخاب، محاکمہ، پہچاننا شامل ہیں۔یہ سب ماورائی نقد کے آلات ہیں،او ر ڈی کنسٹرکشن کے لازمی ’’موضوعات‘‘ اور ’’اہداف ‘‘ ہیں۔اسی طرح دریدا سخت اصرار سے کہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن نہ تو طریق کار ہے ،نہ طریق کار بن سکتی ہے،خاص طو ر پر اگر طریق کار یا میتھڈ کے تیکنیکی مفہوم پر زور دیا جائے۔دریدا کو احساس ہے کہ امریکا میں خاص طو ر اسے میتھڈ بنا لیا گیا ہے۔وہاں یہ بحث ہوئی ہے کہ کیا ڈی کنسٹرکشن مطالعے او ر تعبیر کا طریق کار بن سکتی ہے ؟ کیا اسے تعلیمی اداروں میں اپنائے جانے اور اختیار کیے جانے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ اس کے جواب میں دریدا کہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن کی میتھڈمیں تخفیف نہیں کی جاسکتی۔ وہ اسے ایک عمل اور حربہ بھی نہیں کہتے۔
ڈی کنسٹرکشن اگر تجزیہ نہیں، نقد نہیں، میتھڈ نہیں،تو پھر ہے کیا؟ دریدا کا جواب ہے : ڈی کنسٹرکشن واقع ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو اپنے بارے میں غورکیے جانے ،اپنے شعوریا موضوع کو منظم کیے جانے کا انتظار نہیں کرتا؛ موضوع کا تصور ماڈرینٹی نے دیا ،دریدا کے مطابق ڈی کنسٹرکشن کی ماڈرینٹی یعنی موضوعیت نہیں۔یہ خود کو ڈی کنسٹرکٹ کرتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے چند باتوں پر توجہ کی ضرورت ہے۔دریدا لاکھ روکنے کی کوشش کریں، ڈی کنسٹرکشن: تجزیہ و نقد او ر طریق کار ہوکر رہتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ محض کسی متن کے پڑھنے سے ،یعنی اس پر کسی خاص سیاق میںغو رکیے بغیر ہم اس کی ڈی کنسٹرکشن کی حالت کا ادراک نہیں کرسکے۔یہ سیاق ،کسی متن میں بلاشبہ موجود ہے، مگر جب تک ہم اس سیاق کا کوئی نظری فہم نہیں رکھتے ،یہ ہمیں نظر نہیں آتا۔(اسی اصول سے ،نظری تنقید کا جواز بھی پیدا ہوتاہے ۔)۔ایک نیا نظری فریم ورک ،پرانے متون کے معانی بد ل دیتاہے۔اصل میں دریدااس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر اسے نقد، تجزیہ یا طریق کار بنا لیاجائے تویہ بھی اسی طرح مخصوص فریم ورک ،یا خاص تعقلاتی حدود میں قید ہوجائے گی ،جن سے نجات ہی اس کا مقصود ہے۔اصل یہ ہے کہ ڈی کنسٹرکشن تجزیہ ونقد و طریق کار ،اور ان سے نجات کے درمیان جھولتی رہے گی۔یہ طریق کار وتجزیے سے آغاز کرے گی ،اور انھی کو بے دخل ومعزول بھی کرے گی۔مثلاً خود دریدا کا ڈی کنسٹرکشن کو پابند رکھنے کا عمل ،ڈی کنسٹرکٹ کیا جاسکتاہے۔ دریدا نے بار بارلوگو مرکزیت پر تنقید سے، مغربی فلسفیانہ اور ادبی متون میں’موجودگی کی مابعد الطبیعیات‘ کی نفی کی ہے؛یعنی اس امر کی نفی کہ مقرریا مصنف اپنی موجودگی سے معنی کو قابومیں رکھتاہے۔دریدا جب ڈی کنسٹرکشن کے معانی کو پابند ،اور اپنے منشا کے تابع رکھنے پر سخت اصرار کرتے ہیں توکیا جس لوگو مرکزیت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں،کیا اسی کو باور نہیں کرارہے؟یعنی اپنی موجودگی کو شدت سے باور کراکے، اپنے منتخب کردہ لفظ کے اپنے دیے گئے مخصوص معانی کو پابند کرنے کی کوشش نہیں کررہے ؟
خط میں آگے دریدا کہتے ہیں کہ اگر ڈی کنسٹرکشن ہر کہیں واقع ہوتی ہے ،تو یہ وہاں بھی واقع ہوسکتی ہے ،جہاں کچھ ہے ۔دریدا واضح کرتے ہیں کہ اس ’جہاں کچھ ‘ کو صرف معنی ، متن، یا کتاب تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔گویا جہاں بھی ’کچھ ‘اپنے ہونے کا احساس دلاتاہے ،ہم اس کا ادراک کرسکتے ہیں،اس کی عمل آرائی کو محسوس کر سکتے ہیں،وہاں ڈی کنسٹرکشن واقع ہوتی ہے۔دریدا یہ سوال اٹھاتے ہیںکہ جب ڈی کنسٹرکشن رونما ہورہی ہوتی ہے ،ایک موتف کے طو پر کارفرما ہوتی ہے تو دنیامیں ، ماڈرینٹی میں کیا واقع ہورہا ہوتاہے؟ دریدا اس سوال کا کوئی بنابنایاجواب اس خط میں نہیں دیتے ؛کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ان کی دیگر سب تحریروں کو دیکھا جائے۔ایک بات واضح ہے کہ ڈی کنسٹرکشن کے رونما ہونے سے ،بہت کچھ نیا واقع ہوتاہے،جیسے تکثیریت، غیر قطعیت۔
دریدا یہ ساری بحث اٹھاتے ہوئے محسو س کرتے ہیں کہ وہ ڈی کنسٹرکشن کے ترجمے کو آسان بنانے کے بجائے ،مشکل بنارہے ہیں۔ وہ بنجامین کی یہ رائے بھی شامل کرتے ہیں کہ ’’ناممکن ہی مترجم کا کام ہے‘‘۔مترجم کے کام کو کیا چیز ناممکن بناتی ہے؟ عمومی جواب یہ ہوسکتاہے کہ ہر متن ،اپنی ہی زبان کا منفرد واقعہ ہے،اور اس کی انفرادیت اسی زبان میں قائم ہوتی ہے ،اور برقرار رہتی ہے۔جب اس متن کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنے لگتے ہیں تو دراصل اس دوسری زبان میں ایک منفرد واقعہ رونما ہونے لگتاہے۔لہٰذا وہ ایک نیا متن ہوتا ہے،ترجمہ نہیںہوتا۔جب کہ ڈی کنسٹرکشن کے زاویے سے ترجمہ اس لیے محال ہے کہ تمام قضیے،تمام تشریحی تصورات،تمام نحوی اشارات،اور تمام معنیاتی تشکیلات ،جو یہ شائبہ ابھارتی ہیں کہ وہ ڈی کنسٹرکشن کا ترجمہ ہوسکتی ہیں،وہ سب بھی ،براہ راست یا بالواسطہ ڈی کنسٹرکٹ ہوجاتی ہیں ،یا کی جاسکتی ہیں۔خود ڈی کنسٹرکشن کا لفظ ،ڈی کنسٹرکٹ ہونے کی زد پر رہتا ہے(اس کی طرف اشارہ ہم گزشتہ سطور میں کرچکے ہیں)۔دریدا کے نزدیک اس کا حل ڈسکورس یا تحریر ہے۔کیا ڈسکورس یا تحریر ،وہ کمزور جگہ (Achilles heel)نہیں رکھتی ،جو ڈی کنسٹرکٹ ہونے یا کیے جانے کی زد پر رہتی ہو؟کیا ڈسکورس اس تصور، ماڈل ، میتھڈ کا حامل نہیں جو خود ڈی کنسٹرکشن کی زد پررہتے ہیں؟اس کا جواب دینا آسان نہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈسکورس یا تحریرایک طرح کی متناقض صورت ِ حال میں ہوتی ہے؛وہ ایک تصور، ایک ساخت کو تعمیر بھی کررہی ہوتی ہے ،اور اسے ڈی کنسٹرکٹ بھی کررہی ہوتی ہے۔یہ ایک طرح سے ’حالت ‘ہے،ابہام کی حالت، غیرمتعین ہونے کی حالت۔
آگے دریدا صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن اپنی قدر ،،دوسرے لفظوں کی مانند، ممکنہ متبادلات کے سلسلے سے حاصل کرتی ہے،جسے سیاق کہا جاسکتاہے۔ اس سیاق کا کردار بھی متناقضانہ ہے،یعنی ایک طرف اس سیاق میں ڈی کنسٹرکشن کے معنی کچھ ممکنہ متبادل لفظوں سے متعین ہوتے ہیں ،اور دوسری طرف یہی الفاظ بے دخل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ان الفاظ کی فہرست ہم ابتدامیں دے آئے ہیں۔اس فہرست کو دریدا حتمی نہیں کہتے۔ گویا ڈی کنسٹرکشن ان الفاظ پر منحصر بھی ہے ،اور ان سے آزاد بھی۔یوں بھی جب دریدا یہ کہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن ہر جگہ ہے تواس کے ممکنہ متبادلات،جن کے سیاق میں یہ خود کو واضح کرتی ہے، وہ کیوں کر حتمی ہوسکتے ہیں۔پھر وہ ان متبادلات کو بھی ڈی کنسٹرکٹ کیے جانے کے قابل سمجھتے ہیں۔
دریدا سوال اٹھاتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن کیانہیں ہے؟ جواباً کہتے ہیں:بلاشبہ ہرچیز۔ڈی کنسٹرکشن کیا نہیں ہے؟بلاشبہ کچھ نہیں۔دریدا اعتراف کرتے ہیں کہ ان اسباب کی بنا پر ڈی کنسٹرکشن کوئی مناسب لفظ نہیں ہے۔تاہم اسے دریدا کا انکسار سمجھنا چاہیے۔
دریدا نے یہ ساری گفتگو ڈی کنسٹرکشن کے ترجمے کی خاطر کی ہے۔وہ ڈی کنسٹر کشن کی وضاحت بھی اس لیے کرتے ہیں کہ اس کے ترجمے کے مسائل کی نشان دہی کی جاسکے۔وہ ڈی کنسٹرکشن کے ترجمے کو محال ضرور کہتے ہیں ،ناممکن نہیں۔دریدا کے لیے ترجمہ ،تفہیم اور تشکیلِ نو سے عبارت ہے۔یہی وجہ ہے کہ خط کے آخر میں دریدا کہتے ہیں کہ وہ اس بات میں یقین نہیں رکھتے کہ ترجمہ اصل زبان کے مقابلے میںثانوی اور ضمنی ہے۔یعنی جاپانی میں ڈی کنسٹرکشن کا ترجمہ ثانوی اور ضمنی نہیں ہوگا۔جاپانی میں وہ ایک اور لفظ ہوگا ،اورجاپانی کا مستند لفظ ہوگا،اور اس کے واقع ہونے کو ،جاپانی کے ممکنہ متبادلات میں دیکھا جائے گا۔جاپانی کا یہ لفظ ڈی کنسٹرکشن کے مساوی بھی ہوگا اوراس کا غیر بھی۔دریدا کے بہ قول ترجمے میں وہی خطرہ اور وہی موقع ہے،جو کسی خاص نظم کے ترجمے میں ہوتا ہے۔اب تک ہم نے ڈی کنسٹرکشن کا اردو ترجمہ نہیں لکھا ،تاکہ اس کے ترجمے کی مشکلات واضح ہوسکیں۔ اس مقام پر ہم یہ کہنے کے قابل ہیں کہ اردو میں ردّ تشکیل مناسب ،مگر نامکمل ترجمہ ہے۔اردو میں اس کے اپنے ممکنہ اور معاون متبادلات میں فرق و التوایعنی Differance،ضمیمہ، لوگومرکزیت، غیاب ،خاموشی وغیرہ آئے ہیں ،لیکن یہ فہرست نامکمل ہے،اس لیے کہ اردو میں ردّتشکیل کا اپنا ،مقامی ڈسکورس اپنے بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے،اور اسے بھی سمجھنے کی کوشش کرنے والے کم ،اور سرسری مطالعے کے بعد اسے ردّ کرنے والے کثرت میں ہیں۔
دریدا کے خط کا یہ آخری حصہ تفصیلی بحث کا تقاضاکرتا ہے۔ دریدا جب یہ کہتے ہیں کہ ترجمہ ثانوی اور ضمنی نہیں ہے ،تو دراصل ڈی کنسٹرکشن کے اہم ترین ،اور نازک ترین پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ڈی کنسٹرکشن ،متخالف جوڑوں (Binary Opposites) پر تنقید کرتی ہے۔ اس تنقید کو ریڈیکل کہا جانا چاہیے۔ یعنی وہ ان جوڑوں کی تحلیل کرکے ، ان جوڑوں کے وجود میں آنے کی ’تاریخ‘ اور ان کی اصل کی طرف پلٹتی ہے ، اور ان جوڑوں سے سواصورتِ حال کا ادراک کرنے پر زور دیتی ہے۔یہ آسان کام نہیں ہے ،کیوں کہ صدیوں سے فلسفیانہ اور ادبی متون نے انھیں قائم کر رکھاہے۔ دریدا اس تنقید کا آغازمغربی فلسفے میں لوگومرکزیت کے تصور سے کرتے ہیں،جس کے مطابق لوگوس (جو سادہ مفہوم میں لفظ، منطق،تعقل سے عبارت ہے)مثالی ہے، بنیادی ہے، اصل ہے اور خود مختار ہے۔اسی سے ’موجودگی کی مابعد الطبیعیات‘ کا ظہور ہواہے۔یعنی تقریر کو تحر یر پر فوقیت ملی ہے؛کیوں کہ تقریر اصل اور مستند ہے ،جب کہ تحریر اس سے ماخوذ ہے ،اور اس پر منحصر ہے۔چوں کہ تقریر اصل ہے،اس لیے تقریر کرنے والااپنی موجودگی سے اپنی تقریر کے معانی پر اختیار کو ممکن بناتاہے،جب کہ تحریر میں مصنف و مقرر کی غیر موجودگی سے،تحریر کے معانی پر اختیار بھی باقی نہیں رہتا۔مغربی روایت ،تقریر کو تحریر پر فوقیت دیتی ہے۔ڈی کنسٹرکشن لوگو مرکزیت کو سب سے زیادہ ریڈیکل تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ تقریر وتحریر کے علاوہ بھی متعددمتخالف جوڑے ہیں۔ جیسے:
معنی بے معنی مرد عورت مغرب ٍمشرق شناخت فرق
آقا محکوم مذہب سائنس تعقل تخیل لبریز خالی
زندگی موت سماج فرد کلاسیکیت رومانویت آفاقیت مقامیت
وجود عدم روایت تجربہ
ساختیاتی بشریات کے بانی لیوی سٹراس کا مئوقف تھا کہ متخالف جوڑے ،معنی پیدا کرنے کی خصوصیت رکھتے ہیں۔یہ مئوقف دراصل ساختیات کے اس قضیے سے ماخوذ تھا کہ زبان میں فرق کے سوا کچھ نہیں ،اور معنی فرق سے پید اہوتے ہیں۔ دریدا نے ساختیات اور لیوی سٹراس کے مئوقف پر سوالیہ نشان لگایا۔ یوں وہ متخالف جوڑے اور اس پر مبنی فکر کو ڈی کنسٹرکٹ کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ان جوڑوں میں فرق کے علاوہ نظامِ مراتب بھی موجود ہے۔ ایک جزبنیادی، اصلی اور مستند ہے تو دوسراضمنی ہے،ماخوذہے،طفیلی ہے، ثانوی ہے ،اور منحصرہے۔دریدا ایک طرف نظام ِ مراتب کی نشان دہی کرتے ہیں تو دوسری طرف،اس کے حتمی ،منطقی ،ناگزیر ہونے کے تصور کو ڈی کنسٹرکٹ ہوتا دیکھتے ہیں۔ مردکو عورت کے لیے بنیادی، اصلی اور مستند سمجھا گیا ہے ،جب کہ عورت کو ضمنی ،طفیلی، ماخوذ تصور کیا گیا ہے۔جب ہم اس فرق اور نظام مراتب کی جڑ تک پہنچتے ہیں تو اس کے اندر ،اسے غیر مستحکم کرنے والے عناصر دیکھتے ہیں۔یہی صورت مغرب و مشرق، مذہب و سائنس، شناخت وفرق ،آقا ومحکوم وغیرہ کے متخالف جوڑوں کی ہے۔ان سب کو ’تشکیل ‘ دیا گیا ہے،اور ان کی ’تشکیل‘ ہر لمحہ ڈی کنسٹرکٹ ہونے کی زد پررہتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جو بات انھیں ڈی کنسٹرکٹ کرتی ہے ،اس کا تعلق ’باہر ‘ سے نہیں ہے ؛اگر انھیں متن سمجھیں تو خود متن سازی کا عمل ،اپنے آغاز سے ان کی ڈی کنسٹرکشن کی بنیاد رکھتاہے؛گویا :مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔
دریدا نے Of Grammatologyمیں متن سے متعلق لکھا ہے :
اور اگر ایک متن خود کو اپنی ہی جڑوں کی ایک طرح کی نمائندگی بنا کر پیش کرتا ہے ،تو یہ جڑیں نمائندگی ہی کے ذریعے باقی رہتی ہیں،اور زمین کو کبھی مس نہیں کرتیں۔(ص ۱۰۱)
گویا متن کی اصل ہمیشہ ،نمائندگی کے میڈیم یعنی زبان، اس کے خاص طرح کے استعمال، اس کے جذبہ آفریں یا حوالہ جاتی استعمال ،صنف ،اس کی رسمیات ،رسمیات شکنی وغیرہ میں ’گم ‘ ہوجاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں متن کی اصل ،جسے مصنف کا منشا یا تجربہ کہیں، یا کسی متن کے وجود میں آنے کا بنیادی ،حقیقی نقش کہیں وہ متن کے ’اندر ‘ہی موجود ہوتا ہے۔چوں کہ وہ متن کے’ اندر‘موجود ہوتا ہے ،اور متن جن عناصر سے بنتا ہے ،وہ سب ڈی کنسٹرکٹ ہونے کی حالت میں ہوتے ہیں،اس لیے اس ’اصل‘ تک نہیں پہنچا جاسکتا، البتہ اس تک پہنچنے کی کوشش میں اس کی ’تشکیلِ نو‘ ہوسکتی ہے۔ جسے ہم متن کی اصل کے طور پر پہنچانتے ہیں ،وہ متن کی قرأت سے وضع کی گئی’اصل‘ ہوتی ہے۔خالص تنقیدی زاویے سے دیکھیں تومعلوم ہوگا کہ ہم کسی مصنف کے منشا (جسے متن کی اصل و علت سمجھا جاتاہے )تک اس لیے بھی رسائی حاصل نہیں کرسکتے ،کیوں کہ وہ متن کے اندر ’گم ‘ ہوتاہے۔ہم منشاے مصنف کو پانے کی کوشش میں دراصل اسے نئے سرے سے تشکیل دیتے ہیں۔
ان معروضات کی روشنی میں ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ متخالف جوڑوں کی اصل خود انھی جوڑوں میں موجود ہوتی ہے ،یعنی اس طریقے ،اس عمل میں جس طرح انھیں تشکیل دیا گیا ہے۔اسی لیے دریدا کا یہ کہنا تھا کہ ’متن سے باہر کچھ نہیں‘۔لیکن کیا واقعی ؟ یہ متخالف جوڑے ،جو طاقت کے سماجی ،سیاسی ، ثقافتی اور علمیاتی و دانش ورانہ اظہارات کا سب سے اہم ذریعہ ثابت ہوتے ہیں،ان کا کوئی نقش نہیں رکھتے ؟بادی النظر میں تو یہی لگتا ہے۔ ڈی کنسٹرکشن پر سماجی مفکرین اور اردو کے ترقی پسندناقدین کی تنقید کا مرکزی نکتہ بھی یہی ہے۔دریدا کے اس بیان کو نئے سرے سے پڑھنے کی ضرورت ہے کہ ’متن سے باہرکچھ نہیں‘۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سب کچھ متن کے اندر ہے ،یعنی متن میں اس قدر غیر معمولی صلاحیت ہے کہ وہ سب کچھ سمیٹ لیتاہے ،یا وہی چیز وجود رکھتی ہے ،جو متن میں منقلب ہونے یا اس میں شامل ہونے کی اہلیت رکھتی ہو؟اس کے علاوہ بھی ایک بات ممکن ہے۔ہم کسی چیز کو اس وقت معرض فہم میں لاسکتے ہیں ،جب وہ معنی خیزی کے کسی نظام یعنی متن کا حصہ بنے؛جب تک وہ متن سے باہر ہے ، ہمارے لیے قابل ِ فہم نہیں۔گویا ہم تمام مقتدر اداروں کی حکمت عملیوں کو اسی وقت سمجھ سکتے ہیں ،جب وہ متن کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔لیکن جوں ہی وہ متن کے طور پر سامنے آتی ہیں،خرابی کی صورت بھی ساتھ لاتی ہیں۔ صاف لفظوں میں تما م متخالف جوڑے ،متن کے طور پر ڈی کنسٹرکٹ ہونے کی خلقی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس لیے کہ جس بنیاد پر ان جوڑوں کا ایک جز خود کو بنیادی اور دوسرے کو ضمنی یا طفیلی بناتا ہے ،وہ بنیاد ہی اسے غیر مستحکم کرتی ہے۔مثلاًدریدا Differanceکے ذریعے واضح کرتے ہیںکہ ایک نشان کا معنی خود اپنے غیاب اور مدھم نقوش (Trace)سے فرق کی بنا پر ملتوی ہوتا ہے۔مرد و عورت کے متخالف جوڑے میں مرد کا بنیادی ،مستند ہونااس وقت ملتوی ہوجاتاہے ،جب دوباتوں پر نگاہ پڑتی ہے۔ایک موجودگی کی مابعد الطبیعیات اور دوسری وہ غیر موجودگی ،جومردبہ طور نشان کے ساتھ ’وجود’ رکھتی ہے۔اس متخالف جوڑے کو ممکن بنانے میں پدر سری سماج ،جس کا نمائندہ مردہے،کی موجودگی کا بنیادی کردار ہے ۔دوسری طرف مردبہ طور لسانی نشان کے غیاب میں باپ ،بیٹا، دادا،پوتا، شوہر،غلام، حاکم جیسے کثیرمتبادلات موجود ہیں،اور بہ صورت مدھم نشانات کے۔لفظ ’مرد‘نے ان سب کو دبایا ہوا ہے،جوں ہی یہ ظاہر ہوتے ہیں،ہم پر کھلتاہے کہ بنیادی اور مستندہونے کے لیے ’واحد، داخلی طور پرمنظم ومتحد ‘ ہونا شرط ہے،اور کوئی ’مرد‘ کا لسانی نشان یہ شرط پوری نہیں کرتا ۔لہٰذا جب انھیں سامنے لایا جاتا ہے ،اور ان کی تکثیریت رونما ہوتی ہے تو وہ مرد کے بنیادی ومستند ہونے کے نام نہاد واحد معنی کو ملتوی یعنی ڈی کنسٹرکٹ کردیتے ہیں۔ کم و بیش یہی صورت مغر ب ومشر ق سمیت دیگر متخالف جوڑوں کی ہے۔مغرب و مشرق میں ،مغرب اصل ،بنیادی ، مستند ،تعقل پسند، جدیدیت کا حامل ،ترقی شعار ہے ،جب کہ اس کے مقابلے میں مشرق ضمنی ، طفیلی، اساطیر وتوہمات ومذہب پسندہے،روایت سے جڑاہے،جدیدیت کا مخالف ہے،ماضی میں گم رہنے والاہے۔ یہاں بھی استعمارکار مغرب کی موجودگی ،اس متخالف جوڑے کے معنی کے تعین پر اختیار کی مدعی ہے۔لیکن جوں ہی تحر یر وجود میں آتی ہے ،یا متخالف جوڑا وضع ہوتا ہے، موجودگی کی مابعدالطبیعیات تحلیل ہونے لگتی ہے۔گویا مغرب ومشرق کے جوڑے کے وضع ہونے کے ساتھ ہی،اس کے معنی کے ملتوی ہونے ،اور اس کے ڈی کنسٹرکٹ ہونے کا امکان پیدا ہوجاتاہے۔تقریباً اسی طرح جس طرح ہر بات ،ہر تجربہ اور بلاشبہ ہر متن اپنے آغاز ہی سے اپنے انجام کی طرف بڑھتا ہے۔کہنے کا مقصود یہ ہے کہ جب کوئی متن یا متخالف جوڑا وجود میں آجاتاہے تو اس کی اطراف کھلی ہوتی ہیں،مطالعے کے لیے ، تعبیر کے لیے ،اور ہاں ڈی کنسٹرکشن کے لیے۔ مثلاً مغرب جن خصوصیات کو مشرق سے وابستہ کرکے انھیں ثانوی اور طفیلی قرار دیتا ہے ،وہ سب مغرب میں بھی موجود ہیں،اور تعقل ،سائنس ،فلسفہ ،جدیدیت کو خود سے منسوب کرتا ہے ، وہ مشرق کی تاریخ میں بھی موجود رہی ہیں ۔یعنی کوئی خصوصیت کسی ایک گروہ کے ساتھ حتمی طور پر وابستہ نہیں ،یا کسی نشان کا کوئی معنی مستقل نہیں۔یہاں سوال اٹھایا جاسکتاہے کہ اگر ایسا ہے تو مرد وعورت کی تفریق اور جدیدمغرب اور پس ماندہ مشرق(زیادہ تر برصغیر ،مشرق وسطیٰ)میں ہمیں اتنا فرق کیوں نظر آتاہے ؟ بے شک یہ فرق موجود ہے،مگر یہ فرق اسی وقت دور ہوسکتا ہے ،جب اس فرق کو حتمی نہ سمجھاجائے ، اسے مغرب اور مشرق کی اٹل تقدیر تصور نہ کیا جائے،اور ان امتیازات سے بالاتر ہوکر سوچا جائے جو ان متخالف جوڑوں کے پیدا کردہ ہیں۔
ڈی کنسٹرکشن کا مقصود اس دنیا تک پہنچنا ہے ،جہاں تفریق اور اس سے پیدا کردہ نظام مراتب کارفرما نہیں۔یہ دنیا کیسی ہے؟ ہمارا ذہن ثنویت کا اسیر ہے، اشیا کو ان کی ضد سے پہچاننے کا عادی ہے،وہ کیوں کر ردتشکیلی دنیا کا تصور کرے؟ایک بات واضح ہے:ردّتشکیلی دنیا نفیِ مسلسل کی دنیا ہے۔یہاں تک پہنچنے کے لیے کئی تشکیلات کے التوا،اورانھیں عارضی سمجھنے سے لے کر،ان کی نفی کرنا پڑتی ہے۔اسی لیے دریدا کو منفی الہیات کا علم بردار کہا گیا ہے ،اور بعض لوگوں نے دریدا کی ڈی کنسٹرکشن کا تقابلی مطالعہ ابن العربی کے افکار سے کیا ہے۔ان میںآئن المنڈ کی کتاب Sufism and Deconstruction: A Comparative Study of Derrida and Ibn ‘Arabi خصوصیت سے قابلِ ذکر ہے ۔دریدا الجیریا میں پیدا ہوئے ،جو ایک مسلمان ملک ہے،بعد میں اسلام سے متعلق بھی اظہارِ خیا ل کیا،لیکن سب سے بڑھ کردریدا نے جرمن ماہر الہیات ماستے ایخارت (۱۲۶۰ء۔۱۳۲۸ء)کے بارے میں تفصیل سے لکھا ،جو مغرب میںابن العربی کے ممتاز مفسر سمجھے جاتے ہیں۔اس بنا پر دریدا کے یہاں اسی سریت کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،جو ابن العربی کے یہاں ہے۔اردو والوں کو اس طرح کے مطالعات خاصے ترغیب آمیز محسوس ہوتے ہیں۔اگر انھیں کہیں سے خبر مل جائے کہ کسی مغربی مفکر نے اسلام سے متعلق کلمہ ء خیر کہا ہے ،یا عہد وسطیٰ کے کسی مسلمان مفکر سے استفادے کا اعتراف کیا ہے ،تو اس کے سات خون معاف کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔اس سے صرف کسی مفکر کی قبولیت پیدا ہوتی ہے ،اس کے نظریات وتصورات پر عالمانہ بحث شروع نہیں ہوتی۔یہ بحث مذہب،نسل، رنگ ،صنف ،جغرافیہ جیسے امتیازات کو درمیان میں نہیں لاتی ،صرف ’کیا اور کیسے کہاگیا ہے‘ کا ممکن حد تک غیر جانب داری سے جائزہ لیتی ہے۔ردّتشکیل چوں کہ ہر اس جگہ واقع ہوتی ہے ،جہاں کچھ ہے، اس لیے ہم میں سے کسی کو اصولی طو ر پر اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ادب،کلچر، تاریخ ،سماجی تشکیلات، زبان ،فلسفہ کے ساتھ ساتھ ،مذہب والہیا ت میں بھی نشان زد کی جارہی ہے۔ لیکن ہمیں علمی دنیا میں جرأ ت اور ذمہ داری کا مظاہرہ ایک ساتھ کرنا چاہیے؛ اپنے تعقلات کی شکست کو قبول کرنے کی جرأ ت او ر دوسروں کے تعقلات کا دیانت داری کے ساتھ تجزیہ کرنے کی ذمہ داری۔
آخری بات ! ردّ تشکیل جس ’حالت ‘ تک پہنچاتی ہے،وہ موضوعیت سے بلند،ثنویت سے ماورا،نظام ِ مراتب سے اوپراٹھ کردنیا ومتن کو دیکھنے کی حالت ہے؛ ایک طرح سے آزادی کی حالت ہے،جسے وہی شخص سہار سکتاہے ،جو مکمل خالی پن، مکمل غیاب ،مسلسل نفی ،گہری گھنی خاموشی جھیلنے کا ظرف وحوصلہ رکھتاہے۔ردّتشکیل خاموشی اور ان کہی کے اس منطقے کی حامل ہے ،جو معنی خیز ی کے لامتناہی امکانات رکھتا ہے،اور سب سے بڑھ کر تمام طرح کی تشکیلات کے وجود میں آنے کے عمل کو،خود تشکیلات کے ’اندر‘مضمر ان کی جڑوں تک جاکرکھوجتی یعنی ان کی نئے سرے سے تشکیل کرتی ہے ،یعنی متن کے مطالعے کو تخلیقی سطح تفویض کرتی ہے،اوراس انکسار کو ایک لمحے کے لیے فراموش نہیں کرتی کہ ’نئے سرے سے کی جانے والی ہر تشکیل ‘ یا تخلیق بھی ڈی کنسٹرکٹ کی جاسکتی ہے؛کل من علیہا فان!
نوٹ:ژاک دریدا کے خط کے جس متن کو سامنے رکھا گیا ہے ،وہ Derrida and Différance(مرتبہ ڈیوڈ ووڈ ،رابرٹ برنسکونی،مطبوعہ ۱۹۸۸ء)میں شامل ہے۔