نظم

اک قافلہ : نواز انبالوی


میں نے دیکھا ہے
کہ سحر ہوتے ہی
خوشنودیوں کا ایک قافلہ
فکری، جمالیاتی اور عملیت کا
اک کٹھن سفر طے کر کے
مشرق سے ابھرتے ہوئے
سورج کی پہلی کرن کے ساتھ اس دہرتی پر نمودار ہوتا ہے
پھر وہ ذی وقار بن کر
زمیں پر موجود ہر ذی اور روح کو
ہوش کے حوض سے شعور آگہی بخشتا ہے
نگاہ بسمل عطا کر تا ہے
پھر وہ کسی چمن کے دیدہ و دل میں اتر کر
شاخ در شاخ بیٹھے پنچھیوں کو پر لگاتا ہے
زباں آوری کا سلیقہ سکھاتا ہے
کہیں کسی گل رنگیں کو
شبنم کے قطروں کا
رنگ و خو شبو کی جاودانی کا
گراں بہا تحفہ دیتا ہے
توکسی بلبل چمن کو دل نوائی کا سلیقہ ملتا ہے
پھر وہ قافلہ دریاؤں کی
موجوں کی روانی اور فراوانی بن کر
لہروں کو رقص و سرور سکھاتا ہے
دن بھر یہ قافلہ گشت و گزر کر تا ہے
کسی مظلوم کی آہ و فریاد بن کر
تاریک نگریوں میں بکھرے شراروں کی ماند
امید کی ضیاح بخشتا ہے
شام ہوتے ہی یہ قافلہ
مسافر شب کو راہ ریتِ سفر سکھا کر
تمام شب سوچوں کے ہمراہ چلتا ہے
اور وقت کروٹیں بدلتا جاتا ہے

km

About Author

1 Comment

  1. آمنہ

    نومبر 26, 2019

    بہت عمدہ لاجواب

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی