ہل چلا کر
سوکھی دھرتی کے سینے سے
اناج کا سونا نکالتے ہیں
کپاس کی چاندی اگانے کو
وہ اپنا پسینہ بہاتے ہیں
ان کے اپنے بالوں میں اترتی چاندی
کس نے دیکھی
کھیت کو پانی دینے کو
راتوں کی نیند گنواتے ہیں
کبھی بیلوں کی جگہ خود ہی
ہل میں جت جاتے ہیں
جب گھٹنوں سے لپٹتی کیچڑ میں
دھان کی پنیری لگاتے ہیں
اکثر پاؤں تک ان کے گل جاتے ہیں
اتنی محنت کرکے بھی
چند مٹھی بھر دانے
پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں
کیسا یہ اندھیر ہے
بھری ہوئی بوریاں ساری
موٹی توند والے آڑھتی جو لے جاتے ہیں
کچے کوٹھے برسات میں بہہ جاتے ہیں
کبھی چھت گر جاتی ہے
اور کھلکھلاتے بچے پل میں
بھربھری مٹی بن جاتے ہیں
آج بھی چوہدری کے ہرکارے نے
اس کے لئے سندیسہ بھیجا
تم سے پالا نہیں جاتا
آج سے بالا میرا ہے
ہاری دکھے دل سے سوچے
اچھا ہی ہے
ٹوٹے بان کی چارپائی
بڑھتے بالک کا بوجھ سہار نہ پائے گی
کیا یہ سچ ہے
سارے دکھ بس اس غربت کے کارن ہیں
پر غربت کا کارن کون ہے ؟
ہاری کی بدھی میں ایسی عقل کی بات
خود وہ بھی سمجھ نہ پائے
سوکھے ہاتھوں میں
الجھے بال پھنسائے
جوہڑ کے گدلے پانی میں
اپنے بدلے روپ کو پہچان نہ پائے
ڈھور ڈنگر چرا چرا کے شائد
چریا ہی بن گیا ہے
——————-