اردو میں کلاسیکیت اور جدیدیت کے مباحث ( مابعد نوآبادیاتی تناظر)
(حصہ اول )
اشیا کو ایک دوسرے کی ضد سے پہچاننا اس ابتدائی زمانے سے چلاآتا ہے جب انسانی شعور نے چیزوں کے ساتھ ساتھ خو د اپنی شعوری حالتوںکو معروض بنا کر سمجھنے کا آغاز کیا۔ یعنی جب انسان نے خود کو فطرت ،ماحول اور خود اپنے آپ سے الگ محسوس کرنا شروع کیا۔ ایک بچے کے یہاں شعور کا آغاز ہی اس وقت ہوتا ہے ،جب ماں اور فطرت سے اس کی وحدت ٹوٹتی ہے ،اور وہ خود کو ان سے الگ وجود کے طور پر پہچانتا ہے۔ اس سے بعض لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شعور کی بنیاد ہی فرق، تقسیم اور ثنویت پر ہے،لیکن اس مفروضے میں ایک اہم بات اوجھل ہوجاتی ہے کہ وحدت کے ٹوٹنے کے بعد ، وحدت کی بازیافت کی آرزو بھی جنم لیتی ہے ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی شعور کی ساخت میںفرق و ثنویت اورمماثلت و وحدت،دونوں موجود ہیں۔ تاہم سماجی تاریخ میں فرق و ثنویت کو زیادہ اہمیت ملی ہے۔ برصغیر کی جدید تاریخ(جو نو آبادیات سے شروع ہوتی ہے) میں ثنوی فکر ایک عام علمی اصول کا درجہ اختیار کرگئی۔ تب سے اب تک مجموعی طور پر ’’ہم ‘‘ اور ’’وہ ‘‘ کی ثنوی فکر ہی ،یہاں کے سماج، ثقافت ، ادب کے مطالعات میں کلیدی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ ’’ہم ‘‘ اور ’’وہ‘‘کا مخالف جوڑا صرف یورپ اور ایشیا کی تفریق ہی میں ظاہر نہیںہوتا ،بلکہ خود ایشیا میں بھی کئی صورتوں میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ قوم کی سطح پر ہندو؍مسلمان، زبان کی سطح پر انگریزی ؍اردو ، اردو ؍ہندی ، اردو ؍پاکستانی زبانیں،اور ادب کی سطح پر قدیم وکلاسیکی ؍جدید ادب،نیز روایت ؍جدیدیت۔ تقریباً ہر جگہ اس مخالف جوڑے کا ’علمیاتی کردار‘ یکساں ہے ۔بہ ظاہر ایک کو دوسرے سے فرق کی بناپر شناخت کیا جاتاہے،مگر حقیقت میں اس سے علمیاتی تشدد کی راہ ہموار ہوتی ہے۔مثلاً جب آپ جدیدیت کو روایت کی ضد سمجھتے ہیںیا روایت کو جدیدیت سے حتمی اورقطعی مختلف خیال کرتے ہیں تودر اصل ان میں سے ایک کو دوسرے کے لیے پیمانہ بنا لیتے ہیں۔جسے پیمانہ بناتے ہیں ،اس کی خصوصیات کو افضل ، مثالی، قابل تقلیدخیال کرتے ہیں،اور جس کے لیے پیمانہ بناتے ہیں، اس میں سے انھی خصوصیات کی نفی کرتے ہیں۔گویا جتنے مخالف جوڑے یعنی binariesہیں ، وہ ایک دوسرے کی ضد ہی نہیں ہوتے ، ایک دوسرے کی خصوصیات کی نفی کرنے والے بھی ہوتے ہیں،نیز ان میں لازماً ایک درجہ بندی قائم ہوتی ہے۔ اس ضمن میں خاص بات یہ ہے(اور اسی بنا پر علمیاتی تشدد پیدا ہوتا ہے) کہ کسی بھی مخالف جوڑے کے ایک رکن، مثلاً روایت کی افضل ومطلوب خصوصیات خود روایت کا تصور وضع کرنے کے دوران میں منسوب کی جاتی ہیں،اوراس وقت کی جاتی ہیں جب اسے جدیدیت کے مقابل واضح کیا جاتا ہے۔گویا سوچنے کا طریقہ یا میتھڈ ،چیزوں کی معروضی حقیقت پر حاوی ہوجاتا ہے۔ مثلاً جب’’ روایت ‘‘موجود تھی اور جدیدیت وجود میں نہیں آئی تھی تو اس وقت روایت کو واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی گئی تھی۔ تب اسے لوگ جیتے تھے ، اسے منوانے کی کوشش نہیں کرتے تھے،مگراب جس روایت پر شدت سے زور دیا جاتا ہے وہ ماضی کے منتخب عناصر سے وضع کیا گیا تصور ہے ،جسے منوانے کی کوشش ہوتی ہے(منوانے کی یہ کوشش لسانی و عملی سطحوں پر متشددانہ رخ اختیار کرتی ہے)۔اس سے یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ خود ’’روایت‘‘ ایک جدید تصور ہے (اسے ہم آگے مزید واضح کریں گے)۔ تمام مخالف جوڑے ،خواہ وہ مشرق ومغرب ، سائنس و مذہب، عورت و مرد، کالا وگورا،قدامت وجدت ،جدیدیت وترقی پسندی یا ہم اور وہ کی صورت ہوں،ان میں ایک ،دوسرے کے مقابل خود کو منوانا چاہتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مخالف جوڑے کے دونوں ارکان اپنی اپنی موضوعیت کو برقرار رکھتے ہوئے، اپنے بنیادی منطقوں سے باہر سماج ،سیاست اور علوم سے اپنے لیے ایندھن ’منتخب‘ کرتے ہیں۔ یہی سب کچھ کلاسیکیت وجدیدیت کے مباحث کے ضمن میں دیکھا جاسکتا ہے۔
کلاسیکیت اور جدیدیت کی اصطلاحیں مغربی الاصل ہیں۔مغربی فلسفے اور سائنس کی تاریخوں میں کلاسیکی اور جدید کا فرق تو ملتا ہے، جیسے یونان کے فلسفے کو کلاسیکی اور نشاۃ ثانیہ کے بعد کے فلسفے کو جدید فلسفہ کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح نیوٹن کی فزکس کو کلاسیکی اور آئن سٹائن کے طبیعیات کے نظریات جدید کہلاتے ہیں،مگر مغربی ادب کی تاریخ میں کلاسیکیت کے ساتھ رومانویت کا ذکر ہوتا ہے۔ مغرب میں نشاۃ ثانیہ(چودھویں تا سولھویں صدی) کے بعد ، یونانی و لاطینی ادب کو مثالی نمونوں کی صورت پڑھا گیا اوران کی تقلید کے نتیجے میں جو ادب پیدا ہوا، وہ نو کلاسیکی کہلایا۔ سترھویں صدی کے وسط میں اس کے خلاف ردّ عمل سامنے آیا جسے رومانویت کا نام دیا گیا۔اس کے بعد کلاسیکی و رومانوی ،دو بالکل مختلف اور متضاد ادبی نظریے سمجھے جانے لگے۔ کلاسیکیت کی خصوصیت اگر تعقل و ضبط ہے تو رومانویت کی اساس تخیل و وجدان ہے۔ بعد میں رومانویت کی توسیع اور ردّعمل میں جدیدیت سامنے آئی۔ اہم بات یہ ہے کہ مغرب میں جدیدیت کو کلاسیکیت کی ضد نہیں سمجھا گیا۔مغرب میں بھی جدیدیت کی ضد روایت تھی۔ایلیٹ کے مشہورزمانہ مضمون’’انفرادی صلاحیت اور روایت ‘‘ میں انفرادی صلاحیت ،جدیدیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اردو میں جدیدیت کاارتقا بتاتا ہے کہ اسے پہلے قدیم ،پھر روایت، بعدازاں ترقی پسندی اور آخر آخر میں مابعدجدیدیت کی ضد قرار دیا گیا ہے۔جب کہ کلاسیکیت کا جو ڈسکورس اردو میں رائج ہو ا،وہ جدیدیت کو اپنا مد مقابل تصور کرتا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کلاسیکیت وجدیدیت کی اصطلاحیں مغربی الاصل ہیں،مگر ان میں قائم ہونے والی ثنویت(تمہید میں بیان کی جانے والی خصوصیات کے ساتھ ) خالص اردو کی چیزہے ۔
آج لفظ’ کلاسیکی ‘اردو میں اس طرح داخل ہے ،جیسے یہ قدیم سے چلا آتا ہو اور اردو کا اپنا لفظ ہو۔ اکثر لوگ اس لفظ کے مفہوم کے سلسلے میں کسی تذبذب کا شکار بھی نظر نہیں آتے،جیسا کہ جدیدیت، نو مارکسیت، مابعد جدیدیت کے سلسلے میں عام طور پر نظر آتے ہیں۔ حالاں کہ کلاسیکی ، کلاسیکیت کے الفاظ بھی اسی طرح انگریزی سے اردو میں آئے ہیں ،جس طرح جدیدیت وغیرہ۔ یہی نہیں ، کلاسیکی اور کلاسیکیت بھی اسی طرح مغربی تصوردنیا کے حامل ہیں ،جس طرح جدیدیت اور مابعد جدیدیت۔دل چسپ بات یہ ہے کہ مغربی جدیدیت کی ملامت کرنے والے آج بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں، مگر مغربی کلاسیکیت کو اکثر نے سینے سے یوں لگایاہوا ہے جیسے یہ تصورمقامی ہو اور اپنا ہو۔ مغربی دنیا سے آنے والے تصورات کے سلسلے میں ہمارے مختلف رویوں کاسبب کیا ہے اور اس کے نتائج کیابرآمد ہوئے ہیں،اس پر علاحدہ گفتگو کی ضرورت ہے۔
آج ادب کا ایک عام طالب علم بھی لفظ ’کلاسیکی‘ کا مفہوم جانتا ہے۔ یعنی جدید عہد سے پہلے کا وہ ادب اور فن جس میں عظمت ہو، جو اپنے زمانے کو عبور کرگیا ہو، جسے آج بھی شوق سے پڑھا جاتاہو ،جس میںزبان کی لطافت ، باریکیوں کے ساتھ ساتھ ، دیگر فنی پابندیوں کا خیال رکھا گیا ہو اور جس کی حیثیت استناد ی ہو۔ راقم کا گمان ہے کہ نو آبادیاتی عہد کے بعد جس طرح کی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی، اس نے استناد کی ضرورت کو ہماری بنیادی نفسیاتی ضرورت بنادیااور یہ استناد قبل نو آبادیاتی عہد میں ڈھونڈا جاتا ہے۔چوں کہ ماضی شک وشبہے سے بالاتر ہے ، اس لیے استناد کی آرزو ہمیشہ آدمی اور قوموں کو ماضی کی طرف لے جاتی ہے۔ڈیڑھ صدی سے زائد عرصے کے بعد بھی ولی تا غالب کا فرمایا مستند سمجھا جاتاہے، راشد ، میراجی ، مجید امجد ، فیض کا نہیں۔ یہی نہیں عظمت کا تصور صرف کلاسیکی شعرا کے لیے مخصوص ہے، جدید شعرا میں سے(اقبا ل کے استثنا کے ساتھ ،کیوں کہ وہ بھی کلاسکی سمجھے جاتے ہیں،حالاں کہ وہ کلاسیکی ہیئتیں اختیار کرنے کے باوجود کلاسیکی تصور دنیا کے بجائے جدید تصور دنیا کے حامل ہیں) کسی کے ساتھ عظیم کے سابقے کا اضافہ کفر جیسی سنگین خطا تصور کی جاتی ہے۔جدید شعرا زیادہ سے زیادہ اچھے یا عمدہ ہوسکتے ہیں ،بڑے نہیں۔
اردو میںلفظ ’کلاسیکل ‘انیسویں صدی کے آخری حصے میں استعما ل ہونے لگا تھا ،مگر کلاسیکل زبان کے معنوں میں ۔نذیر احمد کے’’ ابن الوقت‘‘ میں یہ جملہ ملتا ہے:’’مسلمان اپنی کلاسیکل زبان عربی پر فخر کرتے ہیں‘‘۔ خود یہ جملہ غور طلب ہے ؛اس زمانے کی ورنیکلر یعنی اردو میں کلاسیکی عربی پر فخر کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔نیز یہی وہ زمانہ ہے جب برصغیر میں مسلم شناخت کی تشکیل کا آغاز ہوا تھا۔ نئی اردو شاعری اور نئے فکشن (یعنی ناول) میں اپنی اصل یعنی حجازو عرب کی طرف رجوع کرنے کا رجحان پیدا ہوا تھا۔ نذیر احمد و شرر کے ناولوں اور حالی کی نظموں،خصوصاً ’شکوہ ہند‘ اور ’مدوجزر اسلام ‘ میں حجازی اصل میں اپنی قومی شناخت کی جڑیں دیکھی جانے لگی تھیں۔ اس سے پہلے کی شاعری (جسے اب کلاسیکی کہا جاتاہے)میں مسلم قومی شناخت ایک حاوی رجحان کے طورپر نظر نہیں آتی۔مذکورہ جملے سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ابھی اردو پر فخر کرنے کا آغاز نہیں ہوا تھا۔اکثر کے لیے یہ چونکانے کی بات ہوگی کہ لفظ’’ کلاسیکی ‘‘جیسا عام فہم اور مقبول لفظ ۱۹۶۰ء سے پہلے اردو تنقید میں عام نہیں تھا۔یعنی آج ہم ولی تا غالب جس اردو شاعری کو کلاسیکی کہتے ہیں، اسے نہ تو غالب کی وفات کے ایک سو برس بعد تک اور نہ اقبال کی وفات کی تین دہائیوں بعد تک کلاسیکی کہا گیا ۔یہ لفظ کیسے اردو میں داخل ہوا اور کس تیزی سے مقبول ہوا، اس پر ایک نظر ڈالنا دل چسپ بھی ہے اور چشم کشا بھی۔ اردو میں پہلی مرتبہ لفظ’کلاسیکی‘ اردو تنقید میں نہیں ، فلسفے کی ایک مترجمہ کتاب میں ظاہر ہوا۔ ’’اردو لغت تاریخی اصول پر‘‘ کے مطابق یہ لفظ ۱۹۶۳ء میں’’اصول اخلاقیات‘‘ میں استعمال ہوا۔فلسفے کی شاخ اخلاقیات پر مشتمل یہ کتاب جارج ایڈورڈ مور کی تھی ،جسے عبد القیوم نے مجلس ترقی ادب کے لیے شایع کیا تھا۔جس جملے میں یہ لفظ استعمال ہوا،وہ درج ذیل ہے۔
کلاسیکی اور رومانوی اسالیب میں امتیاز اس امر پر مشتمل ہے کہ اوّل الذکر کا مقصد کل کے لیے۔۔۔جب کہ موخرا لذکر کسی ایسے جزو کی جو بذات خود ایک عضوی وحدت ہوتا ہے۱۔
جب کہ کلاسیکیت کا لفظ (اردو لغت تاریخی اصول کے مطابق)مبارزالدین کی کتاب ’’مقام غالب ‘‘ (۱۹۶۰ء) میں برتا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ توہماری ادبی تاریخوں میں اور نہ تنقید میں کلاسیکیت وجدیدیت پر باقاعدہ بحثیں ملتی ہیں۔ ’’آب ِ حیات‘‘(۱۸۸۰ء ) سے لے کر تبسم کاشمیری کی ’‘اردو ادب کی تاریخ ‘‘ (۲۰۰۳ء ) تک میں کسی تاریخ میں ولی تا اقبال کے عہد کی شاعری کو کلاسیکی کا باقاعدہ عنوان دے کر معرض بحث میں نہیں لایا گیا۔حالاں کہ ہمارے اکثر مئورخین ولی سے غالب اور امیر وداغ اور اقبال تک کی شاعری کو کلاسیکی سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مستشرقین کی تاریخوں میں بھی کلاسیکی عہد کا عنوان نہیں ملتا۔ ہمارے مئورخوں نے یاتو متقدمین، متوسطین اور متاخرین کے عنوانات کے تحت دکنی عہد تا غالب و ذوق کے عہد کے اردو ادب پر لکھا ہے ،یا پھر شاعروں کے نام سے ادوار مقرر کیے یا اداروںاور تحریکوں کے عنوانات کے تحت اردو ادب کی تاریخیں لکھیں۔ محمد حسن اور احتشام حسین نے اردو ادب کی تنقیدی تاریخیں لکھتے ہوئے بھی کلاسیکی عہد کا عنوان نہیں جمایا۔ اردو میں شکیل الرحمن نے ’’کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات‘‘ ، کاظم علی خاں نے ’’کلاسیکی اردو ادب ‘‘ ، آفتاب احمد آفاقی نے’’ کلاسیکی نثر کے اسالیب‘‘ ، ایم حبیب خاں نے ’‘ اردو کے کلاسیکی شعرا‘‘ کے عنوانات سے اردو میں کتابیں لکھی ہیں،مگر کسی کتاب میں کلاسیکیت کو واضح نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر انورسدید نے ’‘ اردو ادب کی تحریکیں ‘‘ میں مغرب کی بیشتر تحریکوں پر لکھتے ہوئے کلاسیکی تحریک پربھی لکھا ،لیکن اردو میں کلاسیکی تحریک کو موضوع نہیں بنایا ۔ البتہ ’’اقبال کے کلاسیکی نقوش ‘‘ میں چند باتیں کلاسیکی شاعری کی خصوصیات پر درج کی ہیں۔ڈاکٹر محمد ذاکر نے ’’کلاسیکی غزل ‘‘ (۲۰۰۳ء) کے ابتدائیے میں کلاسیکی غزل کی خصوصیات پر لکھا ہے اور یہ خصوصیات ،ساں بیو اور ٹی ایس ایلیٹ کے کلاسک سے متعلق تصورات کی تسہیل ہیں۔
۱۹۶۰ء سے پہلے اردو تنقید میں نیا ادب ، جدید ادب ،ترقی پسند ادب کی اصطلاحیںپڑھنے کو ملتی ہیں۔۱۸۵۷ء کے بعد اردو ادب جن تبدیلیوں سے گزرا، وہ ایک نئی ،غیر متوقع پیدائش کے معمے کو پیش کرتی تھیں،جنھیںیہ اصطلاحیں ، غیر تسلی بخش انداز میںبیان کرتی نظر آتی ہیں۔ترقی پسند ادب کو بھی ابتدا میں نیا ادب کہا گیا ، لیکن جب یہ محسوس ہواکہ یہ اس نئے ادب سے مختلف ہے جس کی نمائندگی اوائل بیسویں صدی کے رومانوی ادیب کرتے تھے یا تیس کی دہائی میں سامنے آنے والے شعرا (میراجی ،راشد)کرتے تھے، تو نئے ادب کی اصطلاح ترک کر دی گئی۔انجمن پنجاب اور علی گڑھ تحریک کے تحت سامنے آنے والے اردو ادب کو ایک ’نئے سکول ‘ کا نام سر عبدالقادر نے دیا تھا،جس کی اہم ترین خصوصیت اس کا قومی ہونا تھا۔ یہ ادب نیا اور جدید اس مفہوم میں تھا کہ یہ پرانے اور قدیم ادب سے ، موضوع اور اسلوب کی سطحوں پر نہ صرف مختلف تھا، بلکہ اسے ’نئے زمانے ‘ کے لیے نامطلوب سمجھ کر اسے تنقید کا نشانہ بھی بناتا تھا؛یعنی اس کے جاری رہنے کے عمل میں رخنہ ڈالتا تھا۔’نئے ادب ‘ کے آغاز کے ساتھ ہی ہمیں ’پرانے ‘ ادب سے وابستگی رکھنے والوں کی جماعت سرگرم دکھائی دیتی ہے۔دوسرے لفظوں میں انیسویں صدی کے اواخر میں اردو ادیبوں کے یہاں نئے ادب کی تشکیل کی آرزو (Desire)پیدا ہوئی تھی۔ یہ آرزواس نو آبادیاتی صورتِ حال میں ایک نئی ذہنی و جذباتی تنظیم کی تلاش پر مجبور کرتی تھی جس نے ہندستانیوں کی سماجی اور ذہنی زندگی کو منتشر کررکھا تھا اور ایک سیال، غیر متعین حالت کو جنم دیا تھا ۔سماجی حالت کی ابتری کا احساس اردو شعرا کو پہلے بھی تھا،خصوصاً ابدالی اور نادر شاہ کے حملوں کے زمانے میں، جس کا اظہار شہر آشوب کی صنف میںہورہا تھا ۲،مگرسماجی حالت کے سیال ہونے کا ادراک پہلے نہیں تھااور اسے ایک نئی،منظم صورت میں ڈھالنے کی آرزو اردو ادیبوں نے پہلی مرتبہ محسوس کی تھی۔یہ آرز وجس پیرائے میں ظاہر ہوئی، وہ ’قومی واخلاقی ‘ ہے۔ اسی آرزو نے قومی و اخلاقی نظمیں ،سماجی وتاریخی ناول اوراصلاحی مضامین لکھوائے۔چوں کہ نئے ادب کی تشکیل کی آرزو ایک نئی چیز تھی اور ’قومی واخلاقی ‘ تھی ،اس لیے اسے ایک طرف عقلی جواز کی ضرورت تھی،دوسری طرف یہ ان شخصی ، نجی ،لاشعوری عناصرکو قابو میں رکھنے پر زور دیتی تھی جو کسی بھی آرزو کے اظہارکے ساتھ فعال ہونے کا امکان رکھتے ہیں۔ نئے ادب کا عقلی جواز حالی ،شبلی اور اثر کی تنقید نے فراہم کیا۔ نئے ادب کی تشکیل کی آرزو نے چوں کہ تحریک کی صورت اختیار کر لی تھی ، اس لیے اس کے ردّ عمل میں پرانے ادب کی بقا و بحالی کی آرزو کا پیدا ہونا غیر اغلب نہیں تھا۔دونوںآرزوئوں نے اردو ادب میں ایک نئی قسم کی کش مکش اور تقسیم کو جنم دیا جس نے جدید وقدیم کی اصطلاحوںمیں اظہار کیااور ان ادبی اصطلاحوں نے رفتہ رفتہ سماجی وثقافتی منطقوں کی منطق کو جذب کرنا شروع کیا۔بنابریں ہم نو آبادیاتی عہد کے پہلے دور کے اردو ادب میں ’آرزوئوں کی سیاست ـ‘ دیکھ سکتے ہیں۔ کہنے کا مقصود یہ ہے کہ دونوں قسم کی آرزوئیں ادب تک محدود نہیں تھیں ، بلکہ انھوں نے سماج ، ثقافت، اصلاح قوم،اخلاقیات کے ضمن میں جاری بحثوں سے اپنا رشتہ قائم کیا ۔ یہی نہیں اس نئے استدلال کو بھی برتا جو ادب کی فنی وہیئتی بحث اور سماجی اصلاح کی بحث کے آمیزے سے تیار ہواتھا۔یہ سب اردو ادب کے لیے نئی چیز تھی!
آگے اردو میںکلاسیکیت و جدیدیت کے ضمن میں جتنی بحثیں ہوئیں، ان کی جہت تین باتوں سے متعین ہوئی: اوّل نئے ادب کی تشکیل کی آرزو قومی تھی ؛دوم ،اس معاصر سماجی و ثقافتی صورتِ حال سے برابر ہم رشتہ تھی جو نئے علوم اور نئی سیاست سے مرتب ہورہی تھی۔سوم،پرانے ادب کی بحالی کی آرزو نے تہذیبی منطق اختیار کی اور اس منطق کی مدد سے ماضی کی ادبی روایت کی ایک نئی تشکیل کی،محض بازیافت نہیں کی،جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔
پرانے ادب کی بحالی کی آرزو کا اظہارمسعود حسن رضوی ادیب کی ’’ ہماری شاعری ‘‘(پہلی اشاعت: ۱۹۲۸ء) ،مولانا عبدالرحمٰن کی’’مراۃ الشعر‘‘،نیز حسرت موہانی کے ’’نکات سخن‘‘میں ہوا ہے۔ ’’نکات سخن‘‘ کو عنوان چشتی کلاسیکی تنقید کی نظریاتی بوطیقاقرار دیتے ہیں۳۔ یگانہ کی ’’چراغ سخن ‘‘ بھی اس باب میں قابل ذکر ہے۔ واضح رہے کہ ان حضرات میں سے کسی نے کلاسیکی شاعری کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔وہ اسے پرانی ، قدیم ، ہماری شاعری کہتے ہیں۔ مسعود حسن رضوی ادیب جب اپنی کتاب کا عنوان ’’ہماری شاعری ‘‘ رکھتے ہیں توگویا یہ اعلان کرتے ہیں کہ حالی وآزاد سے شروع ہونے والی نئی شاعری ہماری نہیں، بلکہ جس شاعری کو حالی کا مقدمہ ردّکرتا ہے ،وہی شاعری ’ہماری ‘ہے۔کہا گیا ہے کہ زبان میں اسماے ضمیر سب سے زیادہ پریشان کن ہوتے ہیں۔ یہ گروہی تقسیم کو جنم دیتے ہیں:میں ،وہ ،ہم ،آپ یا تم کے ذریعے لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں اورایک گروہ دوسرے کو خارج کرتا ہے ؛’ہم ‘ جس گروہ کی نمائندگی کرتا ہے ،وہ اس گروہ سے مختلف ہے جس کی نمائندگی ‘وہ ‘ سے ہوتی ہے۔نیز یہی اسماے ضمیر اشخاص اور گروہوں کی انفرادیت کو مبہم بناتے ہیں۔یعنی میں یا ہم کہہ کر ہم اپنی واضح اور مکمل انفرادیت ظاہر نہیں کر پاتے ،کیوں کہ ’میں ‘ اور ’ہم ‘ کے صیغے وہ سب لوگ ایک ہی طرح سے استعمال کرتے ہیں ،جن میں کئی طرح کے حقیقی اختلافات ہوتے ہیں۔یہ سب ’ہماری شاعری‘ کی ترکیب میں بھی نظر آتا ہے۔ مسعود حسن رضوی ادیب ’’ہماری شاعری ‘‘ سے مراد وہ ’’قدیم طرز کی اردو شاعری لیتے ہیں ،جس سے تعلیم یافتہ طبقے میں حقارت اور تنفر روز بروز بڑھتا جارہا ہے ‘‘۴۔ یعنی قدیم طرز کی شاعری تو’ ہماری‘ ہے، اس کے سوا جو شاعری ہے ،وہ ہماری نہیں ہے،اس کا ہم سے تعلق نہیں ہے۔اس طرح وہ ’ہماری ‘اور ’ان ‘کی شاعری میں فرق کی لکیر کھینچتے ہیں؛ ’ہم ‘ میں انھی کو شامل کرتے ہیں جو اپنی اصل کو قبل نو آبادیاتی عہد کی شاعری (اور تہذیب و روایت) میں دیکھتے ہیں اور ’ان ‘ سب کو خارج کرتے ہیں جو نو آبادیاتی عہد کی نئی شاعری اور اس کی شعریات سے وابستہ ہیں۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوا،یہ ایک نئی قسم کی تفریق اورتقسیم تھی اور ساتھ ایک نئی طرح کی تنظیم بھی تھی ،جس کا تعلق فقط شاعری سے نہیں ، شاعری کے ذریعے نئے قومی اور تہذیبی تشخص سے بھی تھا۔
آج بھی کلاسیکی شاعری ہی کو ’’ہماری شاعری ‘‘ تصور کرنے اور اس کے بعد آنے والی شاعری کو ’’دوسروں کی شاعری ‘‘ سمجھنے کا رویہ عام ہے۔ بہ ہر کیف ادیب صاحب’’ہماری شاعری‘‘ سے تنفر کا سبب ایک طرف یورپ زدگی اور دوسری طرف اپنی زبان ا ور ادب سے دوری قرار دیتے ہیں۔اس کی ذمہ داری وہ حالی اور اس کے ’’مقدمہ شعرو شاعری ‘‘ پر ڈالتے ہیںاور ’’ہماری شاعری ‘‘ کے ذریعے دراصل اس قدیم شاعری کی بحالی کی کوشش کرتے ہیں ،جسے ان کے خیال میں حالی کی معرکہ آرا کتاب نے نفرت کا نشانہ بنایا۔ ادیب صاحب واضح کرتے ہیں کہ ان کا مطمح نظر حالی کی کتاب کا جواب نہیں بلکہ اس کا تتمہ پیش کرنا ہے، یعنی اس خلا کو پرکرنا ہے جو حالی کے اردو شاعری پر اعتراضات کے نتیجے میں پیدا ہوامگر ’’ہماری شاعری ‘‘ ،’’مقدمے ‘‘کاتتمہ نہیں ،جواب ہے،جسے ’’مقدمے ‘‘ کا متبادل بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ جگہ جگہ ’’ہماری شاعری ‘‘ انھی یورپی محققوں کے شعری تصورات سے اخذ و استفادہ کرتی ہے ، جن کے خیالات کے سبب مقدمے نے ،لوگوں کو اپنی شاعر ی سے دور کیا(یہ دراصل اسی دہرے شعور کا نتیجہ ہے جو یورپ ،جدیدیت کے سلسلے میں اردو ادیبوں میں عام ہوا)۔اس فرق کے ساتھ کہ حالی یورپی محققوں کے خیالات سے اپنا مقدمہ مستحکم کرتے ہیں مگر ادیب اسی مقدمے کا جواب تیارکرتے ہیں۔
ادیب کی کتاب میں وہ کش مکش باقاعدہ متن کی صورت اختیار کرتی ہے ،جو نو آبادیاتی عہد میںایشیا و یورپ یا مشرق و مغرب یا استعمار زدہ واستعمار کار کے مابین سماجی ، ثقافتی اور تعلیمی منطقوں میں جاری تھی۔اس بڑے پیمانے کی کش مکش جب متن میں منتقل ہوتی ہے تو وہ متن ایک خاص قسم کااستناد حاصل کرلیتا ہے۔یوں تو ہر اس متن کو مستند سمجھا جانے لگتا ہے جو وقت کی گرد سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہوتا ہے ، مسلسل پڑھا جاتا ہے اور کسی گروہ کی نفسیاتی و تخیلاتی ضرورتوں کی تسکین کرتا ہے؛بھٹکنا، منتشر رہنا انسانی ذہن کی خصوصیت ہے، مستند متن کے ذریعے انتشار ذہنی کو منظم کرنے اور واضح جہت دینے کی کوشش ہوتی ہے؛ہم کہہ سکتے ہیں کہ مستند متن ہر انسانی گروہ کی لازمی ضرورت ہے۔لیکن ایک معاصر متن اس وقت استناد حاصل کرتا ہے ،جب وہ اسی منطق کو بروے کار لائے یا اس کے تحفظ کی سعی کرے جو کسی ’قدیم ،مستند متن‘ میں مضمر تصورکی جاتی ہے ۔ لہٰذا معاصر متن کا استناد اس کا اپنا نہیں ہوتا،ماضی کے متن سے مستعار، منحصر ،اضافی ہوتا ہے اور مسلسل معرض سوال میں آنے کی زد پرہوتا ہے۔ ’’ہماری شاعری ‘‘ اور اس وضع کی دوسری کتب میں مذکورہ کش مکش یہی خاص قسم کا استناد حاصل کرتی محسوس ہوتی ہے۔ان میں کش مکش کی محض ترجمانی نہیں کی گئی،نہ اس کا غیر جانب دارانہ ،معروضی تجزیہ کیا گیا ہے، بلکہ مشرق وایشیا اور قدیم شاعری کے ضمن میں واضح،جانب دارانہ اور قطعی مئوقف اختیار کیا گیا ہے اور یہ مئوقف جن دلائل کو استعمال کرتا ہے ،وہ ایک طرف ان پرانے تہذیبی نوعیت کے متون سے اخذشدہ ہیں ، جن کا استناد معرض ِ خطر میں محسو س ہوا ؛ دوسری طرف اس کلاسیکی تنقید سے، ،جو بلاغت کی کتابوں میں موجود ہیں اور جو ادب کی اوّلین ، اصلی و اساسی اور لسانی خصوصیت یا ادبیت باور کراتے ہیں۔ یہ بات زور دے کر کہنے کی ہے کہ اس کتاب میں ادبی وتہذیبی دلائل کی یکجائی سے وضع کی جانے والی’ منطق ‘بروے کار لائی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہ جس کتاب کا ردّ کرتی ہے ،اس میں ادبی و قومی ؍اخلاقی دلائل کی یکجائی سے وجود میں آنے والی ’منطق ‘ برتی گئی ہے۔یوں جس کش مکش کو یہ کتاب پیش کرتی ہے ،وہ جدید؍قوم پرستی اور قدیم ؍ تہذیب کے درمیان ہے۔
مسعود حسن رضوی ادیب ، نظم طباطبائی کی ایک نظم درج کرتے ہیں۔اس نظم میںایک طرف انگریزی تعلیم یافتہ طبقے کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے،کیوں کہ وہ اپنی زباں سے ’جاہل‘ ہے،دوسری طرف اپنی زبان اور اس کے ادب کی وہ سب خوبیاں بھی گنوائی گئی ہیں، جو آج بھی کلاسیکی میلان رکھنے والے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
سیکھا انگریزی کا تو علم ادب پر اپنی زباں سے ہیں جاہل سب
ذوق تحریر سے نہیں آگاہ طرز تحریر سے نہیں آگاہ
کچھ بلاغت سے رابطہ ہی نہیں کچھ فصاحت سے واسطہ ہی نہیں
جانتے ہی نہیں زبان کا لطف مانتے ہی نہیں زبان کا لطف
اس کا نشہ دماغ میں ہی نہیں یہ شراب اس یاغ میں ہی نہیں
(ص ۷۸۔۷۹)
ادیب یہ اصول پیش کرتے ہیں کہ’’ ہر قوم کے خیالات اور جذبات جدا ہیںاور رہیں گے ،ہر زبان کا انداز بیان الگ ہے اور رہے گا۵‘‘۔ قوم کا یہ امتیازی تصور(exclusivity) ہے ،جو قوم پرستی کے مغربی تصور کی بازگشت لیے ہوئے ہے ، جس کے مطابق ہر قوم کی واحد اساس ہوتی ہے، زبان، نسل ،رنگ ،خون ،جغرافیہ ،مذہب وغیرہ۔ اسی بنا پر مشرق ،مشرق ہے اور مغرب مغرب اور دونوں کبھی مل نہیں سکتے،جیسی اسطورہ تشکیل دی گئی تھی۔ ادیب صاف کہتے ہیں کہ چوں کہ ہماری قوم کے خیالات اور جذبات الگ ہیں، اس لیے انگریزی ادب اور انگریزی تنقید کے ذریعے انھیں نہیں سمجھا جاسکتا(یہی رائے مولانا عبد الرحمٰن کی بھی ہے)۔صرف عربی وفارسی بلاغت کے اصولوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ کلاسیکیت سے دلی وابستگی رکھنے والے آج بھی یہی خیال کرتے ہیں۔ان کے پیش نظر استعماری جدیدیت اور مقامی جدیدیت کا فرق نہیں ہوتا، اسے ہم آگے چل کر واضح کریں گے۔
یہاں چندباتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ یہ تصور کہ ــجس طرح ہر قوم کے جذبات وخیالات جداہیں،اسی طرح اس قوم کی زبان کااندازبیان الگ ہے اور الگ رہے گا‘‘، اپنی اصل میں ’جدید ،نو آبادیاتی تصور‘ ہے۔ یہاں قوم کاوہ وحدانی تصور پیش کیا جارہا ہے،جس کی بنیاد ہی کثیر و متنوع عناصر (جو کم وبیش ہر قوم کی تاریخ میں موجود ہوتے ہیں) کی نفی پرہے اور جو قدیم یا کلاسیکی شعرا کے سامنے سرے سے تھا ہی نہیں؛ ولی تا غالب کے عہد کی شاعری میں کہیں قومی شاعری نہیں ملتی، البتہ اس میں وطنی، ثقافتی عناصر یعنی ہندستان کی زمین ، فطری مناظر ، رسوم ،متنوع تصورات ضرور ملتے ہیں۔قومی شاعری کا آغاز حالی وآزاد کی شاعری سے ہوا، جن کے خیالات کو ادیب نشانہ تنقید بناتے ہیں۔اس کے بعد کی اردو شاعری کا ایک بڑا حصہ ضرور برصغیر کے مسلمانوں کے ’قومی جذبات ‘ کی نمائندگی کرتا ہے، مگر کلاسیکی شاعری کثیر ثقافتی عناصر کی حامل ہے۔ دوسری بات یہ کہ قوم (جدید معنی میں بھی ) کا وہ طبقہ جو ادب و آرٹ تخلیق کرتا ہے ، وہ ایک قبائلی گروہ کے رکن سے مختلف ہوتا ہے۔ایک قبیلے کے یہاں، ناقابل مصالحت عصبیت کے سبب، یکساں خیالات و جذبات ہوسکتے ہیں،اور ان کی زبان کسی دوسرے قبیلے سے یکسر مختلف ہوسکتی ہے، مگر ایک قوم کے ادب و آرٹ تخلیق کرنے والوں کے یہاں اختلافات ہوتے ہیں۔اس کی وجہ خود ادب و آرٹ ہے جو زندگی ،ذات ،سماج ،خدا ،کائنات کو ’اپنی نظر ‘ سے دیکھنے کی تحریک دیتا ہے۔ یہ اختلافات قدیم عربی شاعری، یونانی شاعری، فارسی شاعری اور کلاسیکی اردو شاعری میں موجود ہیں۔ رومی الگ دبستان ہے، فردوسی دوسرا۔ اسی طرح میر ایک الگ دبستان ہے اور غالب دوسرا۔ اقبال ان دونوں سے بالکل جدا دبستان ہے(حقیقت یہ ہے کہ کلاسیکی ادب کے رائج مفہوم میں اقبال کلاسیکی نہیں، ’جدید کلاسیکی ‘ہے) ۔ یہ سب اپنی تکثیریت اور تنوع کے ساتھ ،اردو شاعری کی ایک ایسی ’ثقافتی شناخت‘ ضرور قائم کرتے ہیں ،جسے کسی دوسری زبان کے ادب سے غیر حتمی انداز میں ممیز کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہاں بھی دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایک زبان کے مجموعی ادب کی یہ شناخت حتمی طور پر دوسری زبانوں سے جد ا ہے یا اس حد تک جہاں تک وہ اپنی ڈھیلی ڈھالی انفرادیت کو ظاہر کرسکے،خصوصاً اپنی صدیوں پرانی علامتوں کی مدد سے۔ اگر ہم یہ یقین کرلیں کہ ہر قوم کی زبان کے ادب کا انداز حتمی طور پر دوسری قوموں کے ادب سے مطلق جدا ہے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ صرف اپنی ہی قوم کے افراد کے لیے قابل ِ فہم ہے۔اس صورت میں ہم کسی دوسری قوم کے ادب کا مطالعہ کرہی نہیں سکتے۔یونانی ہومر، جاہلی عہد کے امرالقیس ،اطالوی دانتے، انگریز ملٹن و شیکسپیئر، روسی دستوفسکی ، آئرش جیمس جوائس،ارجنٹائنی بورخیس، چلی کے پابلو نیرودا ہمارے لیے کوئی معنی رکھتے ہیں نہ وقعت۔ اگر ہم ان سب کے اردو تراجم پڑھتے ہیں،ان سے حظ اٹھاتے ہیں،ایک نئی حیرت کا تجربہ کرتے ہیں،ان سے اپنے تخیل میں وسعت محسوس کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے اپنے ادب میں بامعنی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ہر زبان کے ادب کا انداز منفرد تو ہوتا ہے، مگر یہ انفرادیت دوسری قوموں اور ان کے پڑھنے والوں کے لیے قابل فہم ہوتی ہے اور اس بنا پر ان کے لیے معنی ووقعت رکھتی ہے؛یہ معنی و وقعت ، اس سے مختلف ہوسکتی ہے جو اس زبان کے پڑھنے والے قائم کرتے ہوں ۔ہاں، ایک اہم بات پیش نظر رکھنے والی یہ ہے کہ دوسری قوموں کا ادب کس طور متعارف کروایا جارہا ہے؟ کیا مقامی ادب کو بے دخل کرنے، بے توقیر کرنے ، مسخ کرنے کی غرض سے یااس سب کے بغیر؟ اگر پہلی صورت ہے تو یہ ایک استعماری رویہ ہے جس کا ردّ عمل اپنے ادب کے تحفظ و بقا کی صورت میں سامنے آنا فطری ہے۔گزشتہ صفحات میں نظم طباطبائی کی نظم سے جو اشعار درج کیے گئے ہیں، وہ استعماری رویے کے خلاف مزاحمت سے عبارت ہیں۔
یہاں ہمیں ایک لمحے کے لیے قوم کے وحدانی تصور کے مضمرات پر نظر ڈالنی چاہیے ،جو بعد میں رفتہ رفتہ ہماری تنقید اور قوم کے تصورات میں ظاہر ہوئے اور جو ہماری آج کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔چوں کہ ہرقوم کے خیالات اور جذبات الگ ہیں، اس لیے وہ قوم دوسروں سے یکسر مختلف ہے۔چوں کہ ہر قوم کے افراد باطنی سطح پر مختلف زندگی بسر کرتے ہیں، اس لیے دوسری قوم کے علوم ،فنون اس کے لیے اجنبی ہیں، چوں کہ اجنبی ہیں، اس لیے وہ خطرہ بھی ہوسکتے ہیں۔چوں کہ دوسری قوم کے علوم و فنون خطرہ ہوسکتے ہیں، اس لیے ان سے نہ تواپنی قوم کو سمجھنے میں مدد لی جاسکتی ہے، بلکہ ممکنہ یا حقیقی خطرے کے سد باب کے لیے ان سے دور رہنا ضروری ہے ،اور دل میں نفرت ودشمنی کے جذبات کو بہ طور ڈھال بھی بیدار کرنا ضروری ہے۔ ان مضمرات کا خیال کرتے ہی اردو کی کلاسیکیت یہ اقدامات تجویز کرتی ہے:اپنی اصل کا پرشکوہ تصور قائم کرنا ،اس کی حفاظت کرنا،اس پر تفاخر کرنا اور جدیدیت کو مغربی قوم کی لازمی و اساسی خصوصیت سمجھ کر اس کے خلاف دشمنی کے مستقل جذبات پیدا کرنا۔ یعنی جدیدیت کا ایک وحدانی تصور تشکیل دینا ، اسے صرف اور صرف یورپی الاصل سمجھنا۔ جدیدیت کی مقامی صورت کو یورپی جدیدیت کا ظل قرار دے کر اس کی موجودگی کا انکار کرنا۔
تیسری جس بات کی وضاحت مطلوب ہے ،وہ یہ ہے کہ ادب اور ادب کی تفہیم و تعبیر دو مختلف چیزیں ہیں۔ ادبی متن اپنی اوّلین صورت میں سدا قائم رہتا ہے،بلاشبہ کسی ایک یا زیادہ معانی کے ساتھ جو اس میں مضمر ہوتے ہیں،اس لیے کہ ہم کسی متن کا معنی کے بغیر تصور ہی نہیں کرسکتے۔مگر یہ معنی کیا ہے یا معانی کون کون سے ہیں، یہ امر تبھی معلوم ہوسکتا ہے،جب اس متن کے معنی یا معانی کی تفہیم کا عمل شروع کرتے ہیں۔ جسے ہم معنی کہتے ہیں ،وہ کسی متن سے اس طرح عیاں نہیں ہوتا،جس طرح کسی پھول کا رنگ ۔ حقیقت یہ ہے کہ معنی اس شراکتی سرگرمی کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے،جو قاری کے عمل ِ قرأت اور متن کے درمیان وجود میں آتی ہے۔ یعنی متن پر محض نظر ڈالنے سے ا س کے معانی عیاں نہیں ہوتے۔ اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ متن کی تفہیم ایک متحرک ،شراکتی عمل کا دوسرا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متن کی تفہیم و تعبیر مسلسل بدلتی رہتی ہے،نہ صرف قاری کے ساتھ ،بلکہ زمانے کے ساتھ بھی۔دیکھیے فاروقی صاحب معنی کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں:
آخری تجزیے میں معنی کسی کا مال نہیں، صرف اس شخص کا ہے جو معنی بیان کررہا ہے۔اس معنی میں بیان کرنے والے شخص
نے الفاظ کے ان معانی کو قبول کرلیا ہے جو معاشرے یا متنی نظام textual systemنے متعین کیے ہیں۶۔
اگرچہ معنی کے لیے ’مال ‘ کا استعارہ موزوں نہیں ،کیوں کہ مال ایک ٹھوس شے ہے ،جسے چھینا جاسکتاہے، جس کی ملکیت بد ل سکتی ہے، جس کا تبادلہ کسی اور شے یا معاہدے کے ذریعے کیا جاسکتا ہے ،یا جس کی قدر میں کمی بیشی ہوسکتی ہے؛ یہ خصوصیات معنی میں نہیں،تاہم یہ بات درست ہے کہ معنی پر کسی کا حتمی طور پر اجارہ نہیں(یوں بھی اجارے کے لیے ’شے ‘یا مال کا ہونا ضروری ہے)۔ اس لیے کہ معنی وجود ہی اس وقت آتا ہے جب وہ بیان کیا جارہا ہوتا ہے اور جو بیان کرتا ہے ،وہ معنی اسی کا ہوتا ہے،لیکن ملکیت کے معنی میں بیان کنند ہ کا بھی نہیں ہوتا۔وہ جس معنی کو بیان کرتا ہے ،اسے تنہا، محض اپنے ذہنی ، عقلی ،تخیلی وسائل کے ذریعے بیان نہیں کرتا، بلکہ سماج اور اس کے علوم کی شراکت کے ذریعے بیان کرتا ہے۔اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر ادب کی تفہیم نہ صرف تاریخی و سماجی تبدیلیوں سے متاثر ہوتی ہے،بلکہ نئے نئے علوم کی بصیرتوں سے بھی۔ دوسرے لفظوں میں ولی ،میر اورغالب کی کلاسیکی شاعری کے متون تو اپنی اساسی حالت میں قائم ہیں ،مگر ان کے معانی متغیر ہیں اور جس سبب سے متغیر ہیں وہ سماجی تبدیلی اور نئے علوم کی وہ بصیرتیں ہیں جن کا تعلق انسان ، تخلیقی عمل اور سماج کے فہم سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ میر وغالب کی نئی نئی شرحیں وجود میں آتی ہیں ۔ یہ نئے علوم بڑی حد تک ’انسانی‘جہت رکھتے ہیں، مشرق ومغرب کی روایتی تقسیم سے بلند ہیں۔اس بات کو محمد حسن عسکری بھی اپنی تنقید کے اوّلین دور میں تسلیم کرتے ہیں۔ان کے بہ قول ’’تخلیقی فعل ایک ایسی چیز ہے جو نسل انسانی کے دماغ ،اس کی بناوٹ اور عمل سے تعلق رکھتا ہے۔چناں چہ تنقید خواہ ومشرق کی ہو یا مغرب کی ،مجبور ہے کہ انسان کی نفسیات اور کے دماغ کے محرکات کا مطالعہ کرے۔چوں کہ حیاتیاتی ساخت کے اعتبار سے انسان کا دماغ مشرق اور مغرب دونوں جگہ ایک ساہے۔لہٰذا ادبی تنقید کا وہ حصہ جو تخلیق کی نفسیات سے تعلق رکھتا ہے،ناقابل اعتنا نہیں ہوسکتا۷‘‘۔ یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں حسن عسکری ادب میں ظاہر ہونے والی انسان کی نفسی حالتوں کو روایت کا زائیدہ قراردیتے ہیںاور دماغ کی یکساں حیاتیاتی ساخت جیسا اہم نکتہ فراموش کردیتے ہیں۔
سماجی تبدیلی اور نئے علوم کی بصیرتوں کے لیے ہم اگر ماحولیات یا اکالوجی کا استعارہ استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ جب ماحولیات بدلتی ہے تو ادبی متون اس سے اثرانداز ہوتے ہیں،راست یا بالواسطہ۔ ادبی متون کو نئی ماحولیات سے تطبیق یامقاومت اختیار کرنا پڑتی ہے۔ جو متون ایسا نہیں کرسکتے وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ،یعنی حقیقی سماجی زندگی اور لوگوں کی نفسی وتخیلی زندگی میں ان کا کردار ختم ہوجاتا ہے؛ لوگ انھیں پڑھنا ،ان پربرابر لکھنا، ان کے بارے میں بات گاہے ماہے کرنا ، دوسرے ادبی متون کے ساتھ ان کو زیر بحث لانا ترک کردیتے ہیں؛ وہ محض چند محققوں کی دل چسپی کی چیز بن کررہ جاتے ہیں۔
معنی کے متغیر ہونے کے سبب ہی، حالی و آزاد نے کلاسیکی شاعری کے نئے ’مفاہیم ‘ متعین کیے اور جن کی بنیاد پرکلاسیکی شاعری کوتنقید کا نشانہ بنایا۔یہ مفاہیم کلاسیکی عہد کے قارئین کے معانی سے مختلف تھے ،اور اسی شاعری کے جن معانی کی وضاحت ادیب نے کی ہے،وہ بھی سو فیصد وہ نہیں ہے جنھیں کلاسیکی عہد میں پیش نظر رکھا گیا تھا۔کلاسیکی عہد کی تنقید تذکروں میں محفوظ ہوئی ہے۔ اس تنقید کا مطالعہ بتاتاہے کہ تذکرہ نگارچند مخصوص اصطلاحوں میں اختصار کے ساتھ شاعری کے معانی اور شاعر کامرتبہ واضح کرتا ہے۔شاعر کے مرتبے میں ضمن میں یہ تنقید واضح ہے،مگر کسی شعری متن کی انفرادیت کہیں واضح نہیں ہوتی۔ آہ ، واہ،مردے جاہل است، صاحب کمال،عالی فطرت،خردہ گیری،عیب چینی،نازک خیالی،رنگیں نگاری،بے تہ جیسی اصطلاحات ملتی ہیں۔ادیب اور بعد کے نقاد ان اصطلاحوں میں کلاسیکی شاعری کی وضاحت نہیں کرتے ، بلکہ بلاغت کی اصطلاحوں سے کام لیتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے ’’شعر شور انگیز‘‘ میں کلاسیکی شعریات کی تفہیم مضمون ومعنی اور خیال بندی کی اصطلاحوں میں کی ہے،لیکن انھوں نے خود شعریات کا ’مابعد جدیدتصور‘ پیش نظر کر اس میں ان اصطلاحوں کو سمویا ہے۔ لہٰذا یہ بات اصولی طور پر درست نہیں کہ کلاسیکی ادب کو سمجھنے کے لیے ،وہ تنقیدی نظریات مددنہیں دیتے جو بعد میں سامنے آئے۔اصل مسئلہ ،جو ہماری نظر میں ’تاریخی، نو آبادیاتی مسئلہ ‘ہے ،یہ ہے کہ کلاسیکی شاعری کے وہ بنیادی ،اساسی معانی کیسے بحال کیے جائیں جو کلاسیکی شاعری میں مضمر ہیں،کیوں کہ اسی صورت میں’ جدید،نو آبادیاتی عہد‘ کے ان اعتراضات کا جواب دیا جاسکتا ہے جن کے سبب کلاسیکی شاعری بے توقیر خیال کی گئی ۔ہم نے نو آبادیاتی جبر کے تحت اپنی تاریخ و ثقافت سے جس بے دخلی و معزولی (Displacement)کا ہولناک تجربہ کیا ہے، اور اس کے نتیجے میں معاصر جدید صورتِ حال اور اپنی کلاسیکی ثقافت کے درمیان گہرے شگاف کو مسلسل محسوس کیا ہے، اور اس نے جس طرح ہمیں معاصر جدید صورتِ حال کو استعماری یورپ کی پیدا کردہ صورت حال سمجھنے پر مجبور کیا ہے، اور اپنی کلاسیکی ثقافت سے عمومی اجنبیت کو جنم دیا ہے،اس سب سے نجات کی خاطر ہی ہم اپنی ثقافت کے اساسی معنی کی بحالی وبازیافت کی سعی کرتے ہیں۔یہی نہیں، جدیدیت کی تمام تر مخالفت کا اصل باعث خود جدیدیت نہیں، ’نو آبادیاتی جدیدیت ‘ کا ہمارا وہ تجربہ ہے ،جس نے جارحانہ استعماری انداز میں ہمیں مستحکم ثقافتی روایت سے جد اکیا۔ اسی پس منظر میں کلاسیکی ادب کی شعریات کی دریافت و تفہیم کے لیے ، عربی (و فارسی ) تنقید سے کام لینے پر زور دیا جاتاہے، اس یقین کے ساتھ کہ اردو کے کلاسیکی ادب کے پس منظر میں یہی عربی تنقید کام کررہی تھی۔ عربی تنقید کا بھی وحدانی تصور پیش نظر رکھا جاتا ہے، حالاںکہ عربی تنقید کا ارتقا دوسری تہذیبی روایتوں کے تال میل سے ہوا تھا،لیکن یہ حقیقت فراموش کی جاتی ہے اور عربی تنقید کو خالص مسلم ذہن کی اختراع سمجھ کر زیر بحث لایا جاتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جسے عربی تنقید کہا جاتا ہے ، اور جسے اردو کے کلاسیکی ادب کی تفہیم میں واحد مستند تنقیدی طریق کار کے طور پر پیش نظر رکھنے پر زوردیا جاتا ہے، وہ خالص عربی تنقید نہیں تھی(خالص، واحدانی، غیر ملوث ،اپنے آپ میں مکمل و مکتفی جیسے تصورات پس نو آبادیاتی ہیں)؛اس میں دوسری قوموں کے ان لوگوں کا بھی معتدبہ حصہ تھا جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ محمدعمر میمن نے لکھا ہے:
سولھویں صدی تک جس تمدن کو کلی طور پر عرب تمدن کہا جاتاہے، وہ اپنے تصورات ،سیاسی فکریات ،علوم ، ادیبات، فلسفہ حیات وممات وغیرہ میں خالص عرب کم تھااور اس میں غیرعرب اقوام کے تمدن کا حصہ زیادہ تھاجو اسلام میں داخل ہورہی تھیں۔عربوں کا تنہا لیکن قابل ذکرکارنامہ یہ تھا کہ اس ابھرتے ہوئے تمدن کی بنیاد عربی زبان پر رکھی گئی تھی۔۔۔۔آج ہم ابن رشیق ، ابن عربی، ابن سینا، ابن خلدون ،معتمد ابن عبادوغیرہ کا ذکرکرتے ہیںتو انھیں عربی تمدن کا پروردہ سمجھنے میں ہمیں کوئی تعرض نہیں ہوتا ،لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب عربی النسل نہیں تھے ،بلکہ ابن رشیق کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ رومی الاصل تھا۸۔
عربی کی جو تنقید اردو داں طبقے تک پہنچی ،اس کے ارتقا میں یونانی اثرات کا خاصا حصہ ہے۔سریانی کے راستے سے عربی میں منتقل ہونے والی یونانی فلسفے اور تنقید ی کتب(خصوصاًارسطو کی بوطیقا)نے عرب نقادوں کے خیالات اور طرز فکر پر گہرا اثرڈالا تھا۔ عربی تنقید میں استقرائی طرز فکر یونانی فلسفے اور تنقید کے نتیجے میں آیا(قابل ذکر بات یہ ہے کہ کلاسیکی عہد کے تذکروں میںاستقرائی طرز فکر ظاہر نہیں ہوا)۔بوطیقا کا پہلا عربی ترجمہ ابو بشر متی یونس (م: ۹۴ء)نے کیا۔ابو نصر فارابی، ابن سینا،ابن رشد ، قدامہ بن جعفر کے تنقیدی تصورات میں جہاں نقل (محاکات)، تخیل ، شعر کی ماہیت ،اسلوب وغیرہ کی بحثیں ملتی ہیں،وہ ارسطو کے اثرات کا نتیجہ ہیں(اردو شعرا کے تذکروں میں یہ بحثیں بھی جگہ نہیں پاسکیں)۔ محمد اقبال حسین ندوی کے نزدیک’’اس کتاب [نقد الشعر]کی منطقی طرز تحریر منطقی انداز مباحث کی وجہ سے یونانی اثرات کی تلاش و تحقیق اس میں کی گئی۔اس کتاب کو یونانی منطق و فلسفہ اور خاص طور سے ارسطو کی کتاب الخطابہ اور کتاب الشعر کے اثرات کا نتیجہ فکر قرار دی گئی۔کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ منطقی طرز فکر جو خالص یونانی علوم کی دین ہے قدامہ پر غالب ہے۹‘‘۔
اس میں شک نہیں کہ عربی نقادوں کو اس فرق کا علم تھا جو یونانی شاعری و ڈرامے اور عربی شاعری میں تھا،اوراس فرق کو سامنے رکھ کر ہی انھوں نے یونانی تنقید سے استفادہ کیا۔ اوپر عمر میمن کے جس مضمون کا اقتباس دیا گیا ہے، وہ بورخیس کے ابن رشد پر اس افسانے کے اردو ترجمے کی تمہید ہے ، جس میں ابن رشد کو ٹریجڈی اور کامیڈی کے عربی تراجم کے سلسلے میں پریشان دکھایا گیا ہے۔ ابن رشد نے بالترتیب مدح اور ہجو تراجم کیے،کیوں کہ عربی میں ڈرامے کی دونوں قسمیں نہیں تھیں، مگر اسی افسانے میں بورخیس نے بین السطور کچھ ایسی باتیں لکھی ہیں جو ابن رشد اور دیگر عربی نقادوں کی اس پریشانی کا حل بتاتی ہیں جو انھیں یونانی تنقید کو عربی شاعری کی سیاق میں سمجھنے کے سلسلے میں لاحق تھیں۔ جس وقت ابن رشد کتب کھول کر فکر مند بیٹھا ہے کہ ٹریجڈی کا کیا ترجمہ ہو، اسی لمحے اس کے گھر سے باہر تین بچے کھیل رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے کاندھے پر سوار ہوکر اذان دے رہا ہے، تیسر ا سجدے میں ہے۔بورخیس سجھاتا ہے کہ یہ ایک ناٹک ہے، جو عربی شاعری میں تو موجود نہیں مگر عام زندگی میں جاری وساری ہے مگر ابن رشد کا دھیان اس طرف نہیں جاتا۔ دوسرے لفظوں میں نہ صرف زندگی کے عام مظاہر ،پیچیدہ سوالات کے حل کی طرف ہماری راہنمائی کرسکتے ہیں،بلکہ ادبی مسائل کو صرف پرانے متون میں تلاش کرنے کے بجائے معاصر حقیقی صورتِ حال پر نگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔
اگرچہ مولانا عبد الرحمن کی ’’مراۃ الشعر‘‘ ۱۹۲۶ء میں منظر عام پر آئی تھی ، مگر اس میں ’’ہماری شاعری ‘‘ کی مانند نئی شاعری کے خلاف باقاعدہ مقدمہ تیار کرنے کی کوشش نظر نہیں آتی۔ البتہ ایک نکتہ ایسا ہے جو اس کتاب کے مرکزی تھیسس کو ہماری اس بحث سے راست جوڑتا ہے۔یہ کتاب مصنف کے عربی شعریات سے متعلق خطبات پر مشتمل ہے جو حیدر آباد دکن میں ۱۹۲۵ء میں دیے گئے۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اردو ادب میں وہ نسل نہ صرف سامنے آچکی تھی ،بلکہ وہ ادب بھی تخلیق کررہی تھی جو عربی فارسی کے بجائے مغربی زبانوں اور خصوصاً انگریزی کی طرف دیکھتی تھی۔(مسعود حسن رضوی ادیب کی مخاطب بھی یہی نسل ہے) مولانا عبدالرحمن اسی نسل کے سامنے لیکچر دے رہے تھے، اور ان کے سامنے عربی شعریات پر بحث کی موزرونیت باور کرانے کے لیے ،وہ یہ نکتہ پیش کرتے ہیں کہ اردو شاعری کی اساس عربی شاعری پر ہے۔ پہلے ان کی رائے دیکھیے:
۔۔۔چوں کہ موجودہ فارسی کی شاعری جس کی عمرکسی طرح بارہ سو برس سے زیادہ نہیں ،عربی شاعری کا دودھ پی کر پلی اور پروان چڑھی ہے، اور اردو کا شعر اگرچہ فارسی اور ہندی سے پیدا ہوالیکن صورت شکل میں ہندی سے زیادہ فارسی پر گیا ہے۔ اور اس رشتہ کی وجہ سے ان تینوں زبانوں کی شاعری کے نمایاں خط وخال بہت مشابہ واقع ہوئے ہیں،اس لیے اگر میں صرف عربی شعر کی تعریف کرنے اور اس کی حقیقت دکھانے پر اکتفا کروں اور فارسی اردو کے شعر کو بربنائے مشابہت اسی پر قیاس کر لوں تو کچھ بے جانہ ہوگا۱۰۔
صاف لفظوں میں اردوشاعری کی جڑ ،اصل ، بنیاد عربی شاعری ہے۔یہ بات عیاں ہے کہ یہاں اردو شاعری کے تہذیبی نسب نامے (Genealogy)کی تشکیل کی کوشش کی گئی ہے،تاکہ جدید تعلیم یافتہ گروہ صرف اسی کو ’اپنی شاعری ‘ تصور نہ کرے جو انگریزی اثرات سے شروع ہوئی اور جس کی ولولہ انگیز حمایت حالی کے مقدمے میں ملتی ہے۔تاہم یہاںچندباتیں توجہ طلب ہیں، جن کا جواب کتاب میں موجود نہیں۔ عربی تصور شعر، فارسی میں آتے ہوئے کس قدر بدل گیا؟ فارسی کے وسیلے (mediation)سے اردو میں آتے ہوئے کس درجہ تبدیل ہوا؟ جب شاعری کا سیدھا سادہ ترجمہ کرتے ہوئے ، اصل متن کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے؛ اصل زبان کا متن ، ہدفی زبان کی رسمیات اور علاماتی نظام کے تابع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اصل متن کو مترجمہ متن میں سے اس کی اصلی شکل میں بحال کرنا محال ہوجاتا ہے؛ جب ایک زبان کا لفظ دوسری زبان میں آنے کے بعد اس دوسری زبان کا لفظ بن جاتاہے، بیگُم ، بیگَم ، سٹیشن ،اسٹیشن، میّت، مَیّت بن جاتا ہے، عربی کا مذکر کتاب ، اردو میں مئونث بن جاتا ہے توایک زبان کے شعری تصورات ،دوسری زبان کی متخیلہ میں سے گزرنے کے بعد بہت کچھ بدل جاتے ہیں،اس لیے بھی کہ متخیلہ ایک ایسی قوت ہے جوہے ہی مواد کو پگھلانے والی،اسے بے شکل کرکے نئی شکل میں پیش کرنے والی۔چناں چہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک زبان کی شاعری کی شعریات ، دوسری زبان کی شعری روایت میں منتقل ہونے کے بعد اپنی بنیادی ،قدیمی، اصلی حالت کو برقرار رکھ سکے؟ سوال یہ کہ کیا یہ باتیں اس زمانے کے علما کی نظر سے اوجھل تھیں؟ایک حد تک۔ مثلاً مولانا عبدالرحمن کہتے ہیں کہ معنی آفرینی و خیال بندی فارسی شاعری کی خصوصیات ہیں جو عربی میں موجود نہیں،مگر فارسی کے اثر سے اردو میں آئی ہیں،لیکن مولانا یہ واضح نہیں کرتے کہ فارسی شاعری ،عربی شاعری کا دودھ پینے کے باوجود ایک نئی شعریات جنم دینے میں کیوں کامیاب ہوئی؟اس سوال کا تعلق ’شعریات‘ کی تشکیل کے تخلیقی اسباب اور تاریخ دونوں سے ہے۔ مولانا کا سروکار صرف تاریخ سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے محسوس ہوتے ہیں کہ اردو شاعری کی تاریخ کلاسیکی عربی سے شروع ہوتی ہے۔وہ کلاسیکی سنسکرت کو اس میں شامل نہیں کرتے (جس کی اوّل نشان دہی امداد امام اثر نے کاشف الحقائق میں کی اور آزادی کے بعد ہندوستانی مسلم نقادوں نے )۔در اصل مولانااردو زبان اورکلاسیکی شاعری کے مسلم تشخص کو منزہ رکھنے کے حق میں ہیں۔اسی بنا پر وہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ عربی ،فارسی اور اردو کی قدیم شاعری کو مغربی پوئٹری کے پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا۔ ‘‘جب تک مشرق و مغرب ایک نہ ہوجائیں ،ان کی اصطلاحات اور مصداق اصطلاحات کو بھی ایک ترازو میں نہیں تولا جاسکتا۱۱‘‘۔اصطلاحات کے ثقافتی الاصل ہونے پر بعد میں حسن عسکری نے خاص طور پر زور دیا،جو ہماری نظر میں خود ’جدید رویہ ‘ ہے۔ اس پر کچھ بحث آگے کی جائے گی ۔یہاں ہم صرف دوباتیں عرض کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ تنقید مشرق کی ہو یا مغرب کی ،وہ صرف پیمانے یا معیارات مہیا نہیں کرتی، تفہیم ، تعبیر اور تجزیے کے ’اصول ‘بھی پیش کرتی ہے۔ ’پیمانہ ‘ صرف جمالیاتی مرتبے اور درجے کا علم دے سکتا ہے جس پر ثقافت کا اثر ہوتا ہے؛ یعنی کسی علم ، کسی فن اور ان سے وابستہ لوگوں کے مراتب ثقافتی پیمانے سے طے کیے جاسکتے ہیں۔ جب کہ تنقید کے اصول ادب پارے کی نفسیاتی ،عمرانی ،تاریخی گرہیں کھولنے میں مدد دیتے ہیں۔یہاں تنقید کے اصول اور نظریے میں فرق نظر میں رہنا چاہیے ۔ دوسری یہ بات کہ مولانا یہاں مشرق کے جس تصور کو سامنے رکھتے ہیں ،وہ اسلامی مشرق ہے،اس میں دیگر مشرقی تہذیبیں شامل تصور نہیں کی گئیں۔مولانا حالی ،سرسید، نذیر احمد قوم کا وحدانی تصور پیش کررہے تھے ،اورمولانا عبدالرحمٰن اور دوسرے ’مشرقی نقادتہذیب کا ’وحدانی تصور‘ تشکیل دے رہے تھے۔
مسلک جدید یعنی مغربی اثرات کے ضمن میںایک اور بات بھی مولانا نے حیرت انگیز کہی ہے کہ ’’اگر آئندہ زمانہ شعر میں وزن و قافیہ کا التزام چھوڑ دے اور عام طور پر ناموزوں ،غیر مقفیٰ،رنگین خیالی نثر پربھی شعر کا اطلاق ہونے لگے تو میرے نزدیک شعر کی اس تعریف میںبھی کوئی حرج نہ ہوگا۱۲‘‘۔یہی بات حالی نے مقدمے میں کہی اور آگے چل کر نثری نظم کی صورت سچ ثابت ہوئی۔ اصل یہ ہے کہ ایک طرف نو آبادیاتی عہد کے سب لکھنے والوں کے یہاں دو جذبی (ambivalence)میلان ملتا ہے،اور اس میں قدیم و جدید مسلک کے علمبرداروں میں فرق نہیں؛دوسری طرف قدیم شاعری کی حامی جماعت کو ایک ایسے لنگر کی تلاش تھی جو مستحکم و محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ،ان کا اپناہو، اصلی ہو، غیر مشتبہ ہواور جسے نو آبادیاتی ثقافتی طوفانی حالت کے مقابل اپنے پائوں مضبوطی سے جمانے کے لیے استعمال میں لایا جاسکے۔ مسلمانوں کو عربی(اور فارسی) اور ہندوئوں کو سنسکرت یہ لنگر فراہم کرتی تھی۔ عربی (و فارسی ) اور سنسکرت کا قریب قریب وہی تصور پیش نظر رکھا گیا جو اہل یورپ یونانی و لاطینی کا پیش نظر رکھتے تھے اور فخر کرتے تھے۔یونانی ولاطینی زبانوں کو اہل یورپ اپنی کلاسیکی، آبائی تہذیبی زبانیں قراردیتے تھے۔عہد وسطیٰ کے ہندوستانی مسلمان عربی کو مذہب، فارسی کو علم ،شاعری اور سرکار دربار کی زبان سمجھتے تھے؛نیز فارسی اشراف طبقات کی زبان بھی تھی۔اسی طرح ہندو سنسکرت کو اپنے مذہب اور علم کی زبان خیال کرتے تھے۔ قدیم زبانوں کے لیے کلاسیکی کی شناخت ایک نئی شناخت تھی جو ورنیکلر زبانوں کے مقابلے میں ظاہر ہوتی تھی اور جن میں جدید رجحانات ظاہر ہورہے تھے۔واضح رہے کہ یورپ میں یونانی ولاطینی زبانوں کو جب کلاسیکی زبانیں کہا جاتا تھا تو اپنی مقامی زبانوں یعنی انگریزی ،جرمن، فرنچ، اطالوی کو ورنیکلر زبانیں کہا جاتا تھا۔ ہندوستان میں کلاسیکی وورنیکلر زبانوں کا فرق انگریزوں کی وساطت سے آیا ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اردو میں پہلے قدیم وجدید اور بعد میں کلاسیکی وجدید کے نام سے جو کش مکش شروع ہوئی، اس میں قدیم وکلاسیکی نقطہ ء نظر کی حامل جماعت عربی وفارسی کو اپنی اساس قرار دیتی ہے ، ماضی کی طرف مسلسل دیکھتی ہے،ماضی کا تصور ایک محفوظ لنگر کے طور پر کرتی ہے ،جب کہ جدید نقطہ ء نظر کے علمبردار ورنیکلر زبان ، انگریزی اور زمانہ ء حال سے اپنا تعلق قائم کرتے ہیں۔ اوّل الذکر زمانہ ء حال کے سلسلے میں ،جب کہ ثانی الذکر ماضی کے ضمن میں متذبذب تھے۔
بہ ہر کیف بیسویں صدی کے اوائل ہی سے قبل نو آبادیاتی اور نو آبادیاتی عہد کے ادب کو ایک دوسرے سے یکسر مختلف سمجھنے کی بنیادیں استوار کی جانے لگی تھیں۔ اس بات کو ہم ایک پل کے لیے فراموش نہیں کرسکتے کہ یہ بنیادیں ،خالص علمی نہیں تھیں، یہ بہ یک وقت علمی ، قومی اور تہذیبی تھیںاور ان کی نوعیت بہ یک وقت دفاعی اور مبارزت طلبی سے عبارت تھی۔یعنی یہ بنیادیں دوشاخہ تھیں۔ ایک شاخ ادب میں ، دوسری شاخ قومی تصورات اور قومی تہذیب میں تھی۔ قبل نو آبادیاتی عہد کا اردو ادب ، جسے پہلے قدیم ادب کہا گیا ،پھر کلاسیکی ادب کا نام ملا، عربی وفارسی (اور کہیں سنسکرت) میںبنیاد رکھتا تھا ،جب کہ نو آبادیاتی عہد کا اردو ادب مغربی ادب ،خصوصاً انگریزی ادب میں بنیاد رکھتا تھا۔ ایک کے نزدیک قوم کا تصور تہذیبی تھا، دوسرے کے نزدیک سیاسی و سماجی تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضد سمجھا جانے لگا۔جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ یہ تصورات ایک نئی گروہی تقسیم کو وجود میں لاتے تھے۔ مثلاً سید عبداللہ کے بہ قول:
نیا ادب (modern literature) کلاسیکی ادب کی ضد ہے۔اس میں وہ ساری تحریریں شامل ہیں جو نئے زمانے یعنی ۱۸۵۷ء کے بعد لکھی گئیں، اور ان کی روح ،قدیم ذوق کے برعکس ذوق یا شعور کے کسی نئے انداز کا پتہ دیتی ہے۱۳۔
گویا کسی ابہام کے بغیر کہتے ہیں کہ نئے ادب اور کلاسیکی ادب میں کچھ مشترک نہیں؛ دونوں میں قطبین کا فاصلہ ہے ۔یہ وہی ثنویت ہے جس کا ذکر ہم اس مضمون کی تمہید میں کرآئے ہیں۔نیا ادب جس ’مقام‘ سے شروع ہوتا ہے ، وہ برصغیر کی تاریخ کو حتمی طور پر دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے: قدیم اور جدید،ہنداسلامی او ریورپ زدگی، عربی فارسی اور انگریزی، ماضی اور حال۔لہٰذا نئے ادب کو سمجھنے کے اصول اور ہیں قدیم وکلاسیکی ادب کی تفہیم کے اصول دوسرے۔ ’ہمارا ادب ‘ قدیم وکلاسیکی ہے، نیا ادب ہمارا نہیں،ہم پر مسلط کیا گیا ہے،جس سے آزادی کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم قدیم وکلاسیکی ادب سے اپنے رشتے کی مسلسل بازیافت کریں۔ کلاسیکی ادب کی بازیافت محض ،اپنی اصلی وحقیقی ادبی روایت کی بازیافت نہیںبلکہ اپنی قومی تشکیل کے اصلی منبع تک رسائی کی کوشش بھی ہے ،اور صرف اسی کی مدد سے یورپی، استعماری اور غیر کے تصورات سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی ’علمی وقومی ‘ دلیل کو جیلانی کامران اور محمد حسن عسکری نے باقاعدہ تھیوری کی شکل دی اور جسے عسکری کے مکتبہ ء فکر سے تعلق رکھنے والے نقاد(سراج منیر، سلیم احمد، جمال پانی پتی اور تحسین فراقی )آگے لے کر چلے ہیں۔اس مقام پر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نہ صرف قدیم وجدید کو ایک دوسرے کی ضد سمجھنا ،بلکہ قدیم وکلاسیکی روایت کو اپنی قومی تہذیب کی اساس سمجھنا حقیقت میں ’مابعد نو آبادیاتی رویہ ‘ ہے۔یعنی ایسا رویہ جسے نو آبادیاتی ثقافتی جبر ، مقامی ثقافت و تاریخ کو مسخ کرنے ،مقامی ثقافت وتاریخ کی تعبیر پراختیار حاصل کرنے اور اس تعبیر کی بنیاد پر ’نئے ادبی کینن‘ متعارف کروانے کے خلاف وضع کیا گیا۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ رویہ دفاعی بھی ہے اور مزاحمتی بھی۔چوں کہ یہ رویہ انھی باتوں یا اعتراضات کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور مقامی ثقافت و تاریخ کا دفاع کرتا ہے، اس لیے غیر ارادی طور پر ’نو آبادیاتی حدود ‘کے اندر رہتا ہے، انھیں عبور نہیں کرپاتا۔یعنی ایک طرف اسے صرف وہی نکات برابر متوجہ رکھتے ہیں ،جنھیں ’نئے ادبی کینن‘ ابھارتے ہیں اور جن میں ’قدیم اردو شاعری ‘ کو اعتراضات کا نشانہ بنایا گیا ہوتا ہے ،دوسری طرف یہ اسی ثنوی فکر کا اسیر رہتا ہے جو نو آبادیاتی عہد کی مقبول اور حاوی فکر ہے۔اس فکر میں ایشیا و یورپ کی درجہ بندی میں یورپ اور اس سے وابستہ ہر شے بہ شمول یورپی علم، ادب، ثقافت، نظام حکومت کو اوّلیت و فضیلت حاصل رہتی ہے۔ ’مابعد نو آبادیاتی رویہ ‘ بس اس درجہ بندی کو الٹ دیتا ہے اور یورپ کی جگہ ایشیا کو دے دیتا ہے ،چناں ایشیا اور اس سے وابستہ ہر شے بہ شمول ادب ،علم ، ثقافت کو یورپ اور ا س کے متعارف کردہ ’نئے ادب ‘ پر فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
آزادی کے بعد جو نقاد کلاسیکیت کے امتیازی تصور کو لے کر چلے ،انھوں نے قبل نو آبادیاتی عہد کے لیے ‘ہند اسلامی عہد ‘ کی ترکیب بھی استعمال کی۔جیمز مل نے برصغیر کی تاریخ کو مذہبی اصطلاح میں سمجھنے کا آغاز کیا تھاـ: ہندو عہد، مسلم عہداور برطانوی عہد(یہاں اس نے نو آبادیاتی مئورخوں کی روایتی چالاکی سے کام لیا،اور عیسائی عہد کی اصطلاح سے گریز کیا)۔ ’ہند اسلامی عہد ‘ کی اصطلاح بھی مذہبی ہے۔ ہندوستانی مئورخوں نے اس کی جگہ عہد وسطیٰ کی اصطلاح کو ترجیح دی ہے جو زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے۔ کلاسیکی عہد کی ترکیب اس اعتبار سے بہتر ہے کہ اس میں کوئی مذہبی تلازمہ نہیں ہے؛ یہ الگ بات ہے کہ اسے واضح کرتے ہوئے عام طور پر مذہب اساس تہذیبی تصورات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔بہ ہر کیف ہند اسلامی عہد کی اصطلاح ،جدید عہد کے مسلمان مئورخوں اور نقادوں کی وضع کردہ ہے، جس کا محرک قبل نو آبادیاتی عہد کو ’مسلم زاویے‘ سے شناخت کرنا ہے۔لیکن یہ ’مسلم زاویہ‘ پاکستان کے اکثریتی اور ہندوستان کے اقلیتی مسلمانوں کے لیے الگ الگ مفہوم اور اہمیت رکھتا ہے۔ ہندوستان کی مسلم اقلیت کو اپنی تہذیبی شناخت کاایک ایسا تصور تخلیق کرنا پڑا ہے ،جو انھیں ہندو اکثریت میں گم ہونے سے بھی بچائے اوراس کے ساتھ تطبیق کے قابل بھی بنائے۔اس تصور کی ضرورت تو یکسر عملی اور خالص سیاسی ہے، مگر یہ اس وقت تک وضع نہیں کیا جاسکتا تھا ،جب تک برصغیر کی تاریخ سے متعلق نو آبادیاتی تشکیلات کو ’ڈی کولونائز ‘ نہ کرلیا جاتا،یعنی ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان شروع سے چلی آنے والی مذہبی وتہذیبی آویزش کے نو آبادیاتی بیانیے کی ردّ تشکیل نہ کی جاتی۔ اسی بیانیے کی کوکھ سے اردو اور ہندی کی مذہبی قومی شناختوں نے جنم لیا تھاجن کا نقطہ ء عروج مذہبی بنیاد پر دو ملکوں کا وجود میں آناتھا۔ ہندوستانی مسلمان نقاد نہ صرف ’ہنداسلامی عہد ‘ کو مشترک تہذیبی عناصر کا حامل سمجھتے ہیں ،بلکہ اردو کو بھی۔ہندوستانی مسلمان نقادوں کے نزدیک:
اردو ادب ، بالخصوص مسلمان شاعروں کے کلام کو ہندوستانی تہذیب، عقائد،رسم ورواج ،دیومالائوں،میلوں ٹھیلوں وغیرہ کا مرقع سمجھنا چاہیے۔اگر اس کلام کو ہندی زبان میں لکھ دیا جائے تو بڑی مشکل سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاعر ہندو ہے یا مسلمان۔۔۔۔۔جس تہذیب وتمدن کا ان مسلمان شاعروں نے ذکر کیا ہے،اب وہ مسلمانوں کی تہذیب تھی جو یہاں کی تہذیب میں اس حد تک رنگ گئی تھی کہ یہ شناخت کرنا مشکل ہوگیا کہ کون سی اسلامی تہذیب ہے اور کون سی ہندو۱۴۔
شمس الرحمن فاروقی بھی ہند اسلامی تہذیب میں فارسی عربی کے ساتھ سنسکرت کو شامل کرتے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں:
عربی فارسی اور سنسکرت ،ان دونوں نے ہماری شکل بندی کی ہے،اور روایت میں یہ ذکر کہیں آتا ہی نہیں کوئی ’’دور‘‘ پیدا ہوتا ہے۔زمانہ آتا ہے، زمانہ گزرجاتا ہے،لیکن کوئی نیازمانہ آگیا اور پراناگزرگیا یہ اس روایت میں مذکور نہیں۱۵۔
گویا ہندوستانی مسلمان نقاد اور مئورخ ’ہند اسلامی تہذیب ‘کے جس تصور کو پیش کرتے ہیں،اس میں دو قوموں کے درمیان مذہبی بنیادوں پر فرق تو موجود ہے،مگر زبان، ثقافت اور فنون کی سطحوں پر اشتراک کی متعدد صورتیں بھی وجود رکھتی ہیں۔وہ مذہب کو عمومی اور ادبی تاریخ کی تفہیم کاواحد ، حتمی عنصر نہیں مانتے۔ دوسری طرف پاکستانی نقاد ’ہند اسلامی تہذیب ‘ کا وحدانی تصور پیش نظر رکھتے ہیں۔ہندوستانی نقادوں کے نزدیک کلاسیکی اردو شاعری کا ارتقا قلیل تعداد میں آنے والے عرب، ترک ،وسط ایشیائی مسلمانوں اور مقامی اکثریتی ہندوئوں کے ثقافتی اشتراک کا نتیجہ ہے، یعنی ہندوستان کے عہد وسطیٰ میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے مابین وہ ثقافتی تصادم موجود نہیں تھا، جسے نو آبادیاتی عہد میں دیکھا گیااور جس تصادم کے سبب دونوں قوموں نے الگ الگ اپنا قومی ادب، ہندی اور اردو میں پیدا کیا،اور جس کے سبب الگ ملکوں کا مطالبہ کیا۔جب کہ پاکستانی نقادکلاسیکی عہد کی تفہیم جس ’مسلم زاویے‘ سے کرتے ہیں،اس پر اکثریت کی گہری چھاپ ہے۔ان کے لیے ’ہند اسلامی تہذیب ‘ ہندوستان میں مسلمانوں کی وہ تہذیب ہے جوکسی بھی دوسرے تہذیبی دھارے سے الگ ،ایک اپنی ،خالص رو میں پروان چڑھی ہے،یعنی اس کی بنیاد مابعد الطبیعیات ہے۔مثلاً پاکستانی نقادجیلانی کامران کی رائے ملاحظہ فرمائیے جو انھوں نے غالب کو اس کے تہذیبی پس منظر میں پڑھنے کے ضمن میں دی ہے:
غالب کو اس کی اپنی تہذیب ہی کے حوالے سے پہچانا جاسکتا ہے،اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مسلمانوں کی تہذیب کسی دوسری تہذیب سے سمجھوتا نہیں کرتی۔۔۔غالب کی زندگی کے سراغ کے لیے مغربی تنقید یقینا بے حاصل ثابت ہوگی۱۶۔
مزید فرماتے ہیں:
فکری اعتبار سے غالب کے ہم عصر مومن اور ذوق نہیںبلکہ وہ شاعر ہیں جو اس زمانے میں علاقائی زبانوں کے ذریعے اپنی واردات کو بیان کرتے تھے۔غالب کی ادبی وشعری روایت حاتم ،آبرو، ولی، میردرد اور سودا کی نہیں، بلکہ فرید گنج شکر، سلطان باہو، شاہ حسین، للہ عارفہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی،بلھے شاہ ارو میاں محمد کی روایت ہے۔غالب اس لحاظ سے دربارمعلی کا شاعر نہیں بلکہ ہماری فکری روایت کا شاعر ہے اور اس کی عظمت کا بنیادی سبب یہی ہے کہ اس نے مسلمانوں نے نظام فکرکی مدد سے انسان کے جس مقدر کی خبر دی ،وہ مقدر صرف مسلمانوں کی تہذیب سے وابستہ ہے۱۷۔
اسی قسم کی آرا سید عبداللہ، وحید قریشی، جیلانی کامران، محمد حسن عسکری اور ان کے مکتب فکر کے جملہ ناقدین کی ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جیلانی کامران نے اس فہرست میں کسی ہندوستانی صوفی سنت کو شامل نہیں کیا۔ دہلی کا غالب، نہ تو میر و سودا اور درد کی روایت سے تعلق رکھتا ہے ، نہ بنارس کے کبیر سے ، نہ عظیم آباد کے بیدل سے مگر پاکستانی پنجاب کے بابا فرید، سلطان باہو، شاہ حسین ،بلھے شاہ سے تعلق رکھتا ہے اور سندھ کے شاہ عبداللطیف بھٹائی سے ۔ اس سے قطع نظر کہ غالب نے ان میں سے کسی صوفی شاعر کا مطالعہ نہیں کیا تھا ، نہ غالب پنجابی وسندھی جانتے تھے ،نہ ان میں سے کسی کا ذکر اپنی شاعری میں کیا(میر، بیدل ،صائب ،غنی وغیرہ کا ضرور کیا)،غالب کی شاعری کا مسئلہ مسلم تہذیبی شناخت تھا ہی نہیں۔وہ ان سب شناختوں پر استفہام قائم کرتے ہیں جو انسانی وحدت کو تقسیم کرتی ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ محمد حسن عسکری کے تصورروایت میں غالب کی جگہ نہیں۔عسکری صاحب ذوق، امیرمینائی اور داغ کے چند اشعارمیں تو روایت کی کارفرمائی دیکھتے ہیں،غالب کے یہاں نہیں۔ بایں ہمہ جیلانی کامران ،عسکری کے تصورِروایت ہی کو لے کر چلے ہیں۔یہ کہ روایت واحد ہوتی ہے، دینی ہوتی ہے،مگر اس کے اظہار کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی مقام پر اردو تنقید میں مذہب بہ طور مرکزی اصول کے شامل ہوتا ہے۔حسن عسکری رینے گینوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
روایتی ادب اور روایتی فنون صرف روایتی معاشرے میں پیدا ہوسکتے ہیںاور روایتی معاشرہ وہ ہے جو مابعد الطبیعیات پر قائم ہو۔مابعد الطیعیات چند نظریوں کا نام نہیں ، التوحید واحد۔ مابعد الطبیعیات صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور یہی اصلی اور بنیادی روایت ہے۔۔۔۔یہ مابعد الطبیعیات ہے کیا؟۔۔۔خدا،کائنات اورانسان کا باہمی رشتہ۱۸۔
چوں کہ روایتی ادب کی بنیاد مابعد الطبیعات ( عقائدوعبادات ) ، اصلاح باطن پر ہے ،اس لیے اس کی تفہیم اس مغربی تنقید کی روشنی میں نہیں ہوسکتی جو ’طبیعیات ‘ پر اساس رکھتی ہے ۔ گویا مغربی تنقید اور [مسلم ]روایتی ادب کا اساسی فرق طبیعیات و مابعد الطبیعیات کا ہے،اور یہ ایسا فرق ہے ،جسے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ یوں روایت پسندوں کے یہاں کسی ایسی علمی سرگرمی کی گنجائش موجود نہیںجو بشری ،مادی ، تغیر پذیر سماجی دنیا کی تفہیم کا نتیجہ ہو۔ عسکری صاحب صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ اسلامی روایات کے دائرے میں جو شاعری ہوگی اس کا آخری مقصد تو حقیقت عظمیٰ کی طرف اشارہ کرنا ہی ہوگا۔ اب یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ کون کون سی شاعری (فکشن کو تو بھول جائیے)اس دائرے سے خارج ہوجاتی ہے!اس لیے کہ روایت میں حقیقت کے جس مابعد الطبیعیاتی تصور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس کی نقل نہیں کی جاسکتی، اس کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے ،اور جس ’حقیقت ‘کی نقل کی جاسکتی ہے ، اس کی جگہ روایت میں نہیں۔ اپنے آخری تجزیے میں وہ ادب ،روایت میں جگہ پاتا ہی نہیں جو بشری ،زمینی، مادی تجربات کو پیش کرتا ہے۔
قوم، تہذیب اور روایت کے سب مسائل حقیقت میں یورپی جدیدیت کے پیداکردہ ہیں۔یہ کہنا مشکل ہے کہ قبل جدید عہد یعنی عہد وسطیٰ میں یہ مسائل بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔جدید یت صرف فرد کی ایک ایسی انفرادیت کی تلاش پر زور نہیںدیتی،جو اسے خود اسی کی اپنی، خود مکتفی خصوصیات کی بنا پر واضح کرے، بلکہ قوم ، تہذیب اور روایت کی بھی ایسی ہی انفرادیت کی جستجو کو اہم ترین فکری سرگرمی کا درجہ دیتی ہے۔ فرد کی وہ تنہائی جو فرد ہونے کے ناطے اس کی لازمی تقدیر ہے، جسے قبول کرکے وہ اپنی نجات پاسکتاہے، وہ قوم ،تہذیب اور روایت کی اس انفرادیت میں ظاہر ہوتی ہے ،جو اس کی ’لازمانی ،وراے تاریخ ساخت ‘ میں مضمر ہے۔فاروقی صاحب اسی لیے کہتے ہیں کہ ’روایت میں کوئی زمانہ آتا ہے نہ جاتاہے‘،یعنی روایت تاریخ سے ماورا چیز ہے۔ اقبال قصہ قدیم وجدید کو دلیل کم نظر ی کہتے ہیں۔ جس طرح جدیدیت نے یہ تصور کیا کہ فرد اپنی تنہائی وانفرادیت کا کامل تجربہ کرکے ،اپنی بے مثال ،دیوتائی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتا ہے، اسی طرح قوم ،تہذیب اور روایت کے سلسلے میں یہ سمجھا جانے لگا کہ وہ اپنی مذکورہ خود مکتفی ساخت کے جملہ امکانات کو بروے کار لاکر معجزے دکھاسکتی ہے۔ اصل ،خالص، خود اپنے آپ میں قائم ہونے جیسی خصوصیات کو راہ نما بنا کر قوم ،تہذیب اورروایت جن امکانات سے آشنا ہوتی ہیں ، انھیں انسانی تخیل پوری طرح گرفت میں نہیں لے سکتا۔
بلاشبہ قوم ،تہذیب اور روایت ایک ہی شے کے تین نام نہیں ہیں۔ ان میں ایک بات مشترک ہے: یہ تینوں ‘جدید تصور‘ ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ انھیں جدید عہد میں وضع کیا گیا ،بلکہ اس لیے بھی کہ بہ طور تصور ان میں جدیدیت کی بنیادی خصوصیات ہیں،جن میں خود مکتفی ہونے کی خصوصیت بہ طور خاص قابل ذکر ہے۔ چوں کہ خود مکتفی تصور ہیں،اس لیے ان کی وضاحت کے بنیادی دلائل تاریخ سے نہیںلائے جاتے۔ تاریخ کاحوالہ ضرور آتا ہے مگر وہ ایک تو وہ حددرجہ انتخابی مثالیں ہوتی ہیں،یعنی اسی تاریخ سے بہت سی مثالوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ،دوسرا ان مثالوں کی تعبیر بھی انتخابی ہوتی ہے،یعنی زیادہ تر اسلامی تصوف کا تناظر استعمال کیا جاتاہے، اس مسلم فلسفے کا نہیں جو بنیادی سوال اٹھاتاہے،جیسے ابولعلا معری ،ابن طفیل ،ابن رشد۔ موضوعیت ، جدید ادب اور قوم وتہذیب و روایت کے تصورات میں قدر مشترک ہوتی ہے۔معروضیت، ارضیت، حسیات ، جسمیت ،شئیت ،اشیا کے تنوع کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ البتہ جدید ادب میں حسیات ،جسمیت اور شئیت کی گنجائش ہوتی ہے، تاہم ان پر موضوعیت غالب رہتی ہے۔ یہ موضوعیت ، واحد قطعی مرکز کی طرف مسلسل رجوع کرتے رہنے کی پیدا وار کہی جاسکتی ہے۔جدیدیت میں یہ مرکزفرد کی بشریت ہے،جسے کسی اور ماورائی سہارے یا ذریعہ علم کی ضرورت نہیں۔قوم میں یہ مرکز غیر مبہم آئیڈیالوجی ہے جوایک زبان، ایک مذہب سے عبارت ہے۔تہذیب و روایت میں یہ مرکز مابعدالطبیعیاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے