وہ کنارے پہ جب سے آئی ہے
جھیل بھی کروٹیں بدلتی ہے
ایسی وحشت کبھی نہیں دیکھی
یہ ہوا روشنی سے لڑتی ہے
جس جگہ پر جدا ہوئے تھے ہم
تیرگی سی وہاں پہ ٹھہری ہے
پیڑ پچھلے دنوں ہوا سے گرا
فاختہ شاخ پر ہی بیٹھی ہے
سچ تو یہ ہے کہ میں ہی ایسا ہوں
ورنہ وہ تو بہت ہی اچھی ہے
بند رکھا ہے اس نے کھڑکی کو
ایک تتلی کہیں سے آئی ہے
چاند ڈوبا ہے آ کے پانی میں
آب جُو بات کو سمجھتی ہے