کیا خبر تھی فصل گل کی آرزو کرنے کے بعد
عمر بھر سہنا پڑے گا زرد موسم کا عذاب
(یوسف خالد)
پاکستانی معاشرہ اس وقت ان تمام بد اعمالیوں کی سزا بھگت رہا ہے-جن کا ارتکاب ہم نے گزشتہ سالوں میں کیا-قیام پاکستان کے بعد پہلے دس پندرہ سال سمت کا تعین کرنے کے لیے کافی تھے–مگر ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ہم نے اس کشتی میں سوراخ کرنا شروع کر دیے جس میں ہم خود سوار ہیں–آج نئی نسل وہ فصل کاٹ رہی ہے جس میں کانٹے ہی کانٹے ہیں–جہالت،غربت،بد امنی اور انتشار کے سبب عام فرد کے لیے زندگی ایک کار اذیت بن گئی ہے–بڑھتی ہوئی آبادی نے جو مسائل پیدا کر دیے ہیں ان کا تذکرہ اب بے معنی ہوتا جا رہا ہے–ان مسائل کا ادراک اس دھوپ میں جلنے والے ہی کر سکتے ہیں جس دھوپ نے معاشرے کا سارا بدن جھلسا کے رکھ دیا ہے–ایک شدید بے یقینی،مایوسی اور معاشی بد حالی نے نفسا نفسی کی ٖفضا پیدا کر دی ہے–طوالت کے خوف سے تفصیل میں نہیں جانا چاہتا-کیسی کیسی نفسیاتی بیماریاں جنم لے چکی ہیں-کیسے انسان اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنی عزت،وقار اور ضمیر تک کو بیچ رہا ہے–ان کی تفصیلات اتنی بھیانک ہیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے- ایک لاوہ ہے جو اب پک چکا ہے-اور قریب ہے کہ پھٹ جائے—
ہے کہیں مقتدر حلقوں میں اس کا احساس؟
پڑھا لکھا طبقہ،سوچنے والے اذہان اور اپنے ماحول پر گہری نظر رکھنے والے سخت تکلیف دہ صورت حال سے گزر رہے ہیں—
پل رہا ہے جو تمدن بے حسی کی گود میں
اس کی ہر بستی میں اب یوم حساب آنے کو ہے
جب پرندے بے سبب خاموش ہوں تو جان لو
آندھیاں اٹھنے کو ہیں موسم خراب آنے کو ہے
(یوسف خالد)
———————-
کیسا یہ دل خراش سا منظر ہے سامنے
گم سن کھڑا ہوں جلتا ہوا گھر ہے سامنے
دشت بلا سے کم نہیں شہروں کی زندگی
ہر اک قدم پہ خوف کا پیکر ہے سامنے
(یوسف خالد)
—————————————-
ہر شخص یہاں جائے اماں ڈھونڈ رہا ہے
تہزیب کے گم گشتہ نشاں ڈھونڈ رہا ہے
گھبرایا ہوا شہر تعصب کی فضا میں
ہر ایک مکیں اپنا مکاں ڈھونڈ رہا ہے
(یوسف خالد)
—————————————–
سب احباب حکمرانوں کو اس صورت حال کی سنگینی کا احساس اپنے اپنے انداز میں دلائیں-تا کہ کسی صورت ہم اس اجتماعی خود کشی سے بچ سکیں
یوسف خالد