نجمہ منصور
سُنو!
فرض کرو
تمہارے کمرے کے روشندان سے جھانکتی دُھوپ
تمہارے لکھے ہوئے وہ سارے خط
جو تم نے میرے نام کبھی پوسٹ نہیں کیے
یاوہ سارے لمحے جو تم نے
میرے بغیر بسر کرنا چاہے
میرے کمرے کی اَدھ کھلی کھڑکی میں رکھ جائے تو
یا فرض کرو
سر پھری نٹ کھٹ ہوا
تمہارے دروازے کے پٹ سے کان لگائے
تمہاری وہ ساری باتیں سن لے
جو تم صرف اپنے آپ سے
یا دیواروں سے کرتے ہو
اور پھر میرے دروازے کی چوکھٹ پر رکھ جائے
یا فرض کرو
زرد رو پہیلی چاندنی کا نرم خو قافلہ
تمہاری آنکھوں سے بکھرے سارے خواب سمیٹ کر
میری پلکوں کے زینے پر ٹانک جائے
اور پھر فرض کرو
ایک دن وہ سارے خط وہ سارے لمحے
وہ ساری باتیں وہ سارے خواب
میں دل کی دراز میں کہیں رکھ کر بھول جاؤں
جنہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
اپنی آنکھیں بھی گنوا بیٹھوں تو
فرض کرو
آخر فرض کرنے میں مضائقہ ہی کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔