سعیداشعر
"کھل جا سم سم” کہنے سے
اب کوئی دروازہ نہیں کھلتا
دروازرے
ہاتھ کا لمس اور آنکھ کی پتلی کو پہچانتے ہیں
نوٹوں کا تھیلا
ہاتھ میں لے کر چلنے والے
احمق کہلاتے ہیں
اعداد کی چوری کرنے والے
سات سمندر کی
دوری پر بیٹھے ہیں
مٹی کا سودا
اب بھی
قحبہ خانوں میں طے پاتا ہے
ہم اپنے گلے میں مقدس لوحیں ڈالے
کوئی کجھوروں کی بستی ڈھونڈ رہے ہیں
ہم سے پہلے
غار کے دہانے پر
دشمن آ بیٹھا ہے
پیڑ میں چھپنے والا
خاموشی سے
دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تھا
ستو کا تھیلا
پانی کی چھاگل
اور ناقہ کے کوہان کی چربی
آدھے رستے کے ساتھی ہیں
ہماری ہجرت
آدھے سے زیادہ دنیا
اپنے اپنے ٹی وی پر
لائیو دیکھ رہی ہے