فیصل اکرم
تیر بن کے چبھ رہے ہیں یوں اجالے آج پھر
روشنی سے بہہ گئے آنکھوں کے چھالے آج پھر
خود کلامی مت سمجھ تُو سایہ بھی تو ساتھ تھا
جا سیانے ڈاکٹر سے تُو دوا لے آج پھر
ہے بدن میں دل چراغِ روزنِ دیوار سا
آ وجودِ روشنی سے لَو چُرا لے آج پھر
خاک میں پنہاں ہوئی ہے اب نکل کے ہر امنگ
یوں دریدہ دل رفوگر کے حوالے آج پھر
میرا سایہ پشت سے آگے ہوا تو یوں لگا
ہے تعاقب میں کوئی خنجر سنبھالے آج پھر