سعید اشعر
کیسی باتیں کرتے ہو
آؤ پھر سے ہم اپنی اپنی قربانی
شہر سے باہر
اک میدان میں کر کے چھوڑ آتے ہیں
قدرت کو منظور ہے جس کی قربانی
اس کی خاطر
اک کوندا لپکے گا
باقی کوے، کتے اور گدھ کھائیں گے
ورنہ سڑ گل جائیں گی
کیسی باتیں کرتے ہو
کیا تم میں اتنی ہمت ہے
اپنا چھوٹا سا بچہ اور اک بوڑھی عورت
کسی ویرانے میں
لے کر اللہ کا بابرکت نام
اکیلا چھوڑ آؤ
چاہے تم کو معلوم بھی ہو
بچہ ایڑھی رگڑے گا تو زم زم جاری ہو جائے گا
کیسی باتیں کرتے ہو
اللہ اپنے ہاتھ سے یہ لکھ کر دے دے
میرے بندے
بیٹے کی قربانی دے
میں اس کی جگہ
دھنبے کا خون بہاؤں گا
تم نے انکار ہی کرنا ہے
کیسی باتیں کرتے ہو
آبادی سے ہٹ کے تمہاری حویلی ہے
دیس کی خاطر
تم کیا دو گے جان
تم تو سوداگر ہو
تمھاری خوراک میں
مردہ بھائی کا گوشت بھی شامل ہوتا ہے