سید کامی شاہ
ہر ایک چہرے میں چہرہ ترا نظر آئے
ترے سوا نہیں کوئی تو کیا نظر آئے
دکھائی دے کہیں پانی میں آگ سی کوئی
اور آگ میں بھی کوئی رنگ سا نظر آئے
تُو میرے دل پہ کبھی ہاتھ رکھ کے دیکھ ذرا
سنائی دے تجھے دھڑکن، دُعا نظر آئے
فسونِ عالمِ ہستی، کمالِ دیدہ و دل
جو کوئی دیکھے اُسے باخدا نظر آئے
تماشا گاہ میں سب کچھ ہے دیکھنے کے لیے
سو دیکھیے جو بھی اچھا بُرا نظر آئے
جو دیکھنے کو ہی راضی نہیں ہے خواب کوئی
بتایئے اُسے کیسے بھلا نظر آئے
ہے دیکھنے کو ضروری نگاہ کا ہونا
سو دھیان کر کہ تجھے دوستا نظر آئے
یہ ریگ زار کسی آنکھ پر کھلے جو کبھی
ہر ایک ذرہٗ ریگ آئینہ نظر آئے
پرائے گھر میں کسی آئنے کو تکتے ہوئے
عجب نہیں جو کوئی دوسرا نظر آئے
دکھائی دے جو کہیں خون میں رواں کامی
،،وہی چراغ میں جلتا ہُوا نظر آئے