چند لمحوں کے لیے ایک ملاقات رہی
پھرنہ وہ تو نہ وہ میں اورنہ وہ رات رہی
کرۂ ارض نے دیکھا ہی نہ تھا وہ خورشید
جس کی گردش میں شب و روز مری ذات رہی
اب تو ہر شخص اجالوں میں کھڑا ہے عریاں
کون سی شکل پس پردۂ ظلمات رہی
سرد مہری مرے لہجے میں بھی ہوگی لیکن
تجھ میں خود بھی تو نہ پہلی سی کوئی بات رہی
حال دل اس کو سنا کر ہے بہت خوش کوثرؔ
لیکن اب سوچ ذرا کیا تری اوقات رہی